ممبئی (وارتا)عظیم شاعر اورنغمہ نگار مجروح سلطانپوری کو اپنے نغمے ایک دن بک جائے گا ماٹی کے مول کے لئے شومین راج کپورنے ایک ہزار روپئے دئے تھے ۔ مجروح سلطانپوری کی پیدائش اتر پردیش کے سلطانپور شہر میں یکم اکتوبر ۱۹۱۹ء کو ہوئی تھی ان کے والد ایک سب انسپکٹر تھے اور وہ مجروح سلطانپوری کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دینا چاہتے تھے ۔ مجروح سلطانپوری نے لکھنؤ کے تکمیل الطب کالج سے یو نانی طریقہ علاج کا امتحان پاس کر کے اور بعد میں وہ حکیم کے طور پر کام کر نے لگے ۔ بچپن کے دنوں سے ہی مجروح سلطانپور ی کو شعر و شاعری کرنے کا کافی شوق تھا او ر وہ اکثر سلطانپور میں ہونے والے مشاعروں میںحـصہ لیا کر تے تھے جن سے انہیں کافی نام و شہرت ملی انہوںنے اپنی میڈیکل پریکٹس درمیان میںہی چھوڑ دی اور اپنی توجہ شعر و شاعری کی طرف لگا نا شروع کردی اسی دوران ان کی ملاقات مشہور شاعر جگر مرا د آبادی ؎سے ہوئی ۔ ۱۹۴۵ میں صابو صدیق انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے منعقد ایک مشاعرے میںحصہ لینے مجروح سلطانپوری ممبئی آئے مشاعرے میں ان کی شاعری سن کر مشہور فلم ساز اے آر کار دار کافی متاثرہوئے اور انہوںنے مجروح سلطانپوری سے اپنی فلم کے لئے نغمہ لکھنے کی پیش کش کی۔ انہوںنے کاردار کی اس پیش کش کو
ٹھکرادیا کیوںکہ فلموںکے لئے نغمے لکھنا وہ اچھی بات نہیں سمجھتے تھے ۔
جگر مرا د آبادی نے مجروح سلطانپوری کو تب مشور ہ دیا کہ فلموںکیلئے نغمہ لکھنا کوئی بری بات نہیں ہے ۔ نغمے لکھنے سے ملنے والی رقم میںسے کچھ پیسے وہ اپنے کنبہ کے خرچ کے لئے بھیج سکتے ہیں ۔ جگر مراد آبادی کے مشورے پر مجروح سلطانپوری فلم میںنغمے لکھنے کے لئے راضی ہوگئے ۔موسیقار نوشاد نے مجروح سلطانپوری کو ایک دھن سنائی اور ان سے اس دھن پر ایک نغمہ لکھنے کو کہا ۔ مجروح سلطانپوری نے ا س دھن پر جب ان کے گیسو بکھرائے بادل آئے جھوم کے نغمہ لکھا ۔ مجروح کے نغمے لکھنے کے انداز سے نوشاد کافی متاثر ہوئے اور انہوںنے اپنی نئی فلم شاہجہاں کے لئے نغمے لکھنے کی پیش کش کی ۔ فلم شاہجہاں کے بعد محبوب خان کی انداز اور ایس فاضل کی مہندی جیسی فلم میں اپنے نغموںکی کامیابی کے بعد مجروح سلطانپوری بطور نغمہ نگار فلم انڈسٹری میں اپنی شناخت قائم کرنے میںکامیاب ہوگئے ۔ کمیونسٹ نظریہ کے سبب مجروح سلطانپوری کو کافی مشکلات کا سامنا کر نا پڑا اور انہیں جیل بھی جانا پڑا ۔ مجروح سلطانپوری کو حکومت نے مشورہ دیا کہ اگر وہ معافی مانگ لیتے ہیں تو انہیں جیل سے آزاد کر دیا جائیگا لیکن مجروح سلطانپوری اس بات کے لئے راضی نہیں ہوئے اور انہیں دو سال کے لئے جیل بھیج دیا گیا ۔
مجروح سلطانپوری کے جیل چلے جانے سے ان کے کنبہ کی مالی حالت کافی خراب ہو گئی راج کپور نے ان کی مدد کر نا چاہی لیکن مجروح سلطانپوری نے ان کی مدد لینے سے انکا ر کر دیا اس کے بعد راج کپور نے ان سے ایک نغمہ لکھنے کی پیش کش کی ۔ مجروح سلطانپوری نے ایک دن بک جائے گا ماٹی کے مول نغمہ کی تخلیق کی جس کے عوض راج کپور نے انہیں ایک ہزار روپئے دئے ۔ ۱۹۷۵میں راج کپور نے اپنی فلم دھر م کرم کے لئے اس نغمہ کا استعمال کیا ۔ تقریباً دو سال تک جیل میں رہنے کے بعد مجروح سلطانپوری نے ایک بار پھر سے نئے جوش و خروش کے ساتھ کام کر نا شروع کردیا ۔ ۱۹۶۳ میں آئی فلم فٹ پاتھ اور آر پار میں اپنے نغمو ںکی کامیابی کے بعد مجروح سلطانپوری فلم انڈسٹری میں دوبارہ اپنی شناخت حاصل کرنے میںکامیاب ہوگئے ۔ مجروح سلطانپوری کی خدمات کو دیکھتے ہوئے ۱۹۹۳ میں انہیں فلم انڈسٹری میں اعلیٰ اعزاز دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا گیا اسکے علاوہ ۱۹۶۴میں آئی فلم دوستی میں اپنے نغمے چاہوںگا میں تجھے سانجھ سویرے کے لئے وہ بہترین نغمہ نگار کے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازے گئے ۔ مجروح سلطانپوری نے چار دہائی سے بھی زیادہ طویل فلمی کیرئیر میںتقریباً تین سو فلموںکے لئے تقریبا ً چار ہزار نغمے لکھے اپنے نغموںسے ناظرین کا دل جیتنے والے عظیم شاعر اور نغمہ نگار ۲۴ مئی ۲۰۰۰ کو اس دنیا کو الوداع کہہ گئے ۔