27 مئی 2014:
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میں نے فوجی مردوں اور عورتوں اور تعینات شدہ سیولین ملازمین کا، ایک شکر گزار قوم کی طرف سے اس کی سلامتی کے لئے
غیر معمولی قربانیاں دینے پر شکریہ ادا کرنے کے لئے، اس اختتام ہفتہ افغانستان کا دورہ کیا۔ ہم نے آج تک جو پیش رفت کی ہے اس کا جائزہ لینے کے لئے میں نے اپنی فوج کی قیادت کرنے والے جنرل اور اپنے سفیر سے بھی ملاقات کی۔ اور آج میں امریکہ کے عوام کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ افغانستان میں مستقبل کا لائحہ عمل کیا ہو گا اور اس سال امریکہ کی طویل ترین جنگ کو ہم کس طرح ذمہ دارانہ طریقے سے ختم کرسکتے ہیں۔
امریکہ نے اس لڑائی کا آغاز نہیں کیا تھا۔ 11 ستمبر 2001 کو ہماری قوم پر القاعدہ کی طرف سے کیے گئے حملے کے بعد، ہم ضرورت کے تحت افغانستان گئے تھے۔ ہم نے القاعدہ اور اس کے انتہا پسند اتحادیوں کے خلاف جنگ ،امریکی عوام اور کانگرس میں ان کے نمائندوں‘ بین الاقوامی برادری اور اپنے نیٹو اتحادیوں اور افغان عوام کی مضبوط حمایت سے شروع کی۔ افغان عوام نے دہشت گردی کے تاریک استبداد سے پاک، اس موقعے کا خیر مقدم کیا۔
اب ہمیں افغانستان میں بہت سے امریکیوں کی توقعات کے برعکس، لمبا عرصہ ہوگیا ہے۔ لیکن کوئی غلط فہمی میں نہ رہے۔ ہمارے فوجیوں، سفارت کاروں اور انٹیلی جنس کے ماہرین کی مہارت اور قربانیوں کی وجہ سے ہم نے القاعدہ کی قیادت کو زبردست دھچکا پہنچایا ہے، ہم نے اوسامہ بن لادن کا خاتمہ کردیا ہے، اور ہم نے افغانستان کو اپنے وطن کی سرزمین پر حملہ کرنے کے لئے استعمال ہونے سے روکا ہے۔ ہم نے افغانستان کے لوگوں کی بھی ایسے وقت مدد کی ہے جب وہ جمہوریت کی تعمیر کے لئے محنت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عورتوں اور لڑکیوں سمیت ہم نے وہاں کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ مواقعے فراہم کیے ہیں۔ اورہم نے ان کی اپنی سکیورٹی فورسز کی تربیت اور آلات سے لیس کرنے میں مدد کی ہے۔
جو کام ہم نے شروع کیا تھا اب ہم اسے ختم کررہے ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں سے ہم نے سکیورٹی کی ذمہ داریاں افغانوں کو منتقل کرنے کا کام کیا ہے۔ ایک سال پہلے افغان افواج نے جنگی کاروائیوں میں قائدانہ کردار سنبھالا تھا۔ اس وقت سے ان کی تعداد اور طاقت میں اضافہ جاری ہے اور وہ اپنے ملک کے لئے عظیم قربانیاں دے رہے ہیں۔ اس منتقلی نے ہمیں100,000 کی اپنی افواج کی سب سے زیادہ تعداد میں مسلسل کمی کر تے ہوئے، آج تقریبا 32,000 تک لانے کا موقع دیا ہے۔
سال 2014 کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اپنے اتحادیوں اور افغان حکومت کے ہمراہ ہم نے اس سال افغانستان میں اپنے جنگی مشن کو ختم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ یہ سال افغانستان میں سیاسی منتقلی کا بھی ایک سال ہے۔ اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لئے اور خطرات کا مقابلہ کرتے ہوئے، اس سال بہار کے شروع میں صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں لاکھوں افغان ووٹ ڈالنے کے لئے باہر نکلے۔ اور آنے والے دو ہفتے سے کچھ زیادہ کے عرصے میں وہ اپنے اگلے صدر کے لئے ووٹ ڈالیں گے اور افغانستان اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ جمہوری انتقالِ اقتدار کا مشاہدہ کرے گا۔
اس پیش رفت کے تناظر میں کانگریس اور اپنی قومی سلامتی کی ٹیم سے صلاح مشورے کے بعد، میں نے 2014 کے بعد امریکہ جو عزم کرنے کے لئے تیار ہے، اس کی نوعیت کا تعین کیا ہے۔ ہمارے مقاصد واضح ہیں: یعنی القاعدہ کی جانب سے درپیش خطرات میں خلل ڈالنا؛ افغان سکیورٹی فورسز کی مدد کرنا؛ اور افغان عوام کو اپنے پاوَں پر کھڑا ہونے کے لئے کامیاب ہونے کا موقع دینا۔
ہم ان مقاصد کو اس طرح حاصل کریں گے۔ پہلے، امریکہ کا جنگی مشن اس سال کے آخر تک ختم ہوجائے گا۔ اگلے سال کے آغاز میں افغان اپنے ملک کو محفوظ بنانے کے لئے مکمل ذمہ دار ہوں گے۔ امریکی اہل کاروں کا کردار مشاورتی ہوگا۔ ہم اس کے بعد افغان شہروں، پہاڑوں یا وادیوں میں گشت نہیں کریں گے۔ یہ کام افغانیوں کا ہو گا۔
دوسرے، میں نے یہ بات واضح کردی ہے کہ ہم افغانوں کے ساتھ 2014 کے بعد دو محدود مشنوں پر تعاون کرنے کے لئے تیار ہیں: یعنی افغان افواج کی تربیت اور القاعدہ کی باقیات کے خلاف انسداد دہشت گردی کی کاروائیوں میں مدد۔
آج، میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ امریکہ ان مشنوں کو آگے بڑھانے کے لئے کس طرح تیار ہے۔ 2015 کے آغاز میں تقریبا 98,000 امریکی فوجی ہوں گے۔ مجھے دوبارو شروع کرنے دیں کیونکہ میں یہ یقینی بنانا چاہتا ہوں کہ ہم اسے غلط تحریر نہ کر دیں۔ 2015 کے آغاز میں، ہمارے نیٹو کے اتحادی اور دیگر شراکت داروں کے ہمراہ ملک کے مختلف حصوں میں، 9,800 امریکی فوجی ہوں گے۔ 2015 کے اختتام تک ہماری موجودگی تقریبا نصف تک کم کردی جائے گی اور ہم اپنے فوجیوں کو کابل میں اور بگرام کے ہوائی اڈے پر مجتمع کردیں گے۔ ایک سال بعد، 2016 کے آخر تک جیسا کہ ہم نے عراق میں سکیورٹی کی اعانت کے ایک جزوکے طور پر کیا ہے، ہماری فوج کی تعداد کم ہو کر کابل میں سفارت خانے کی سطح کی ایک عام تعداد تک رہ جائے گی۔
تاہم جب ہمارے فوجی وطن واپس لوٹ رہے ہوں گے، بین الاقوامی برادری افغانوں کی، جب وہ آنے والے کئی سالوں میں اپنے ملک کی تعمیر کریں گے، حمایت جاری رکھے گی۔ لیکن ہمارے تعلق کا تعین جنگ سے نہیں بلکہ اس کی تشکیل ہماری مالی اور ترقیاتی مدد اور سفارتی حمایت سے ہو گی۔ افغانستان کے لئے ہمارے عزم کی جڑیں اس تزویراتی شراکت داری میں گڑی ہوئی ہیں جس پر ہم نے 2012 میں اتفاق کیا تھا۔ اور یہ منصوبہ اس بات چیت سے ہم آہنگ ہے جو ہم نے اپنے نیٹو کے اتحادیوں سے کی ہے۔ جیسا کہ افغانستان سے متعلق ہر قدم پر ہمارے اتحادی ہمارے ساتھ رہے ہیں، ہم توقع کرتے ہیں کہ ہمارے اتحادی آگے بڑھتے ہوئے بھی ہمارے ساتھ رہیں گے۔
تیسرے،2014 کے بعد ہم اپنی فوجی موجودگی صرف اس صورت میں برقرار رکھیں گے اگر افغان حکومت اس دو طرفہ سکیورٹی کے سمجھوتے پر دستخط کرے گی جس پر ہماری دونوں حکومتیں پہلے ہی بات چیت کر چکی ہیں۔ یہ سمجھوتہ ہماری افواج کو وہ اختیارات دینے کے لئے لازمی ہے جن کی انہیں افغان علاقائی خود مختاری کا احترام کرتے ہوئے اپنا مشن پورا کرنے کی ضرورت ہے۔ صدر کے لئے دوسرے مرحلے کے انتخاب کے لئے دونوں حتمی افغان امیدواروں نے یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ اپنے عہدہ سنبھالنے کے فوراًبعد اس سمجھوتے پر دستخط کریں گے۔ لہذا میںپُر امید ہوں کہ ہم یہ کام مکمل کر سکتے ہیں۔
حتمی نکتہ یہ ہے کہ اب وہ وقت آگیا ہے ہم اس ایک عشرے سے زیادہ مدت سے باہر نکلیں جس کے دوران ہماری بہت ساری خارجہ پالیسی، افغانستان اور عراق کی جنگوں پر مرتکز رہی ہے۔ جب میں نے اپنا عہدہ سنبھالا تو ہمارے تقریباً 180,000 فوجی خطرات سے دوچار تھے۔ اس سال کے آخر تک ہمارے 10,000 سے کم فوجی ایسے حالات کا سامنا کریں گے۔ اپنے فوجیوں کو وطن واپس لانے کے علاوہ امریکی خارجہ پالیسی کا یہ نیا باب، ان جنگوں کی وجہ سے بچنے والے کچھ وسائل کا رخ دہشت گردی کے بدلتے ہوئے خطرات سے نمٹنے کی طرف زیادہ تیزی سے موڑنے کی اجازت دے گا اور بیک وقت ہم دنیا بھر میں ترجیحات کے ایک وسیع تر سلسلے سے بھی نمٹ سکیں گے۔
میرا خیال ہے کہ امریکیوں نے سیکھ لیاہے کہ جنگوں کو شروع کرنے کی نسبت ختم کرنا زیادہ مشکل ہے۔ تاہم اکیسویں صدی میں جنگیں اسی طرح ختم ہوتی ہیں۔ جنگیں دستخط کرنے کی تقریبات سے نہیں بلکہ دشمنوں کے خلاف فیصلہ کن معرکوں، منتخبہ حکومتوں کو اقتدار کی منتقلیوں، قیادت کرنے والی اور بالاخر پوری ذمہ داری سنبھالنے والی سکیورٹی فورسز کے ذریعے سے ختم ہوتی ہیں۔ ہم ایک علاقائی طور پر خود مختار، محفوظ، مستحکم، اور متحدہ افغانستان کے لئے پر عزم ہیں۔ اس مقصد کے لئے، ہم افغانوں کی قیادت میں ان کے اپنے ملک میں مفاہمت کے ذریعے امن کے فروغ کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ افغانستان ایک کامل جگہ نہیں ہو گی اور یہ امریکہ کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ اسے ایسا بنائے۔ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ ہرگز افغانوں کو کرناچاہئے۔ لیکن جو کچھ امریکہ کر سکتا ہے – جو ہم کریں گے – وہ یہ ہے کہ اپنے مفادات کو محفوظ بنائیں گے اور افغانوں کو ایک موقع دینے، ایک ایسا موقع دینے میں مدد کریں گے جس سے وہ جد وجہد سے ایسا امن حاصل کریں جس کے وہ ایک طویل عرصے سے حقدار ہیں۔
امریکہ ساتھ دینے والے اپنے دوستوں اور شراکت داروں سے کئے گئے اپنے وعدوں کا پاس کرے گا اور ہم 9/11 سے پہلے جیسی القاعدہ کو حاصل محفوظ پناہ گاہوں کو روکنے کے اپنے عزم مصمم سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ یہ عزم ان فوجی مردوں اور عورتوں میں مجسم ہے جو آج وردی میں ہیں یا پہلے تھے اور جو آج افغانستان میں خدمات انجام دے رہے ہیں یا ماضی میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں، میں وہ کردار دیکھتا ہوں جو امریکہ کی سلامتی اور بیرون ملک ہماری قیادت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ یہ زیادہ تر وہ نوجوان لوگ ہیں جو جنگ کے وقت رضاکارانہ طور پر آگے آنے میں ہچکچائے نہیں۔ جیسے ان میں سے بہت سے شہری زندگی اختیار کرنے کا آغاز کریں گے، تو ہم اپنے اس وعدے کا پاس کریں گے جو ہم نے ان سے اور تمام سابقہ فوجیوں سے کیا ہے اور اس امر کو یقینی بنائیں گے کہ ان کووہ دیکھ بھال اور فوائد حاصل ہوں جو انہوں نے اپنی محنت سے حاصل کیے ہیں اور جن کے وہ مستحق ہیں۔
9/11 کی یہ نسل، ہیروز کی اس مسلسل لائن کا حصہ ہے جنہوں نے آدھی دنیا دور خدمات سر انجام دینے کے لئے مانوس آسائشوں کو تج دیا۔ وہ ایسا اپنے خاندانوں اور کمیونٹیوں کی حفاظت کرنے کے لئے کرتے ہیں اور ان لوگوں کو بہتر زندگی کا موقع مہیا کرنے کے لئے کرتے ہیں جنہیں انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں کہ وہ ان سے ملیں گے۔ یہ ان کی اور ان کے خاندانوں کی طرف سے ایک غیر معمولی قربانی ہے۔ لیکن ہمیں ان کی اس قربانی کے لئے آمادگی پر حیران نہیں ہونا چاہئے۔ ہم امریکی یہی کچھ ہیں۔ ہم یہی کچھ کرتے ہیں۔
کل میں ویسٹ پوائنٹ جاوَں گا اور اور امریکہ کی فوج کی حالیہ ترین کلاس سے اس موضوع پر بات کروں گا کہ افغانستان کا ہماری آگے بڑھنے کی نئی اسٹریٹیجی میں کیا مقام ہے۔ میں پًر اعتماد ہوں کہ اگر ہم اس سوچ پر عمل کریں تو ہم نہ صرف افغانستان میں اپنی جنگ ذمہ دارانہ طور پرختم کرسکتے ہیں اور اپنے ابتدائی طور پر جنگ کا باعث بننے والے مقاصد حاصل کر سکتے ہیں، بلکہ ہم دنیا بھر میں امریکی قیادت کی کہانی میں ایک نیا باب شروع کرنے کے قابل بھی ہوسکیں گے۔
بہت بہت شکریہ۔