بوکو حرام کے مسلح ارکان نے چیبوک کے ایک سکول سے 200 سے زائد لڑکیوں کو اغوا کیا تھا
نائجیریا میں پولیس نے دارالحکومت ابوجا میں ان دو سو سے زیادہ طالبات کی رہائی کے لیے ہونے والے مظاہروں پر پابندی لگا دی ہے جنھیں اپریل میں شدت پسند تنظیم بوکوحرام نے
ابوجا کے پولیس کمشنر جوزف مبو نے کہا ہے کہ یہ مظاہرے اب سکیورٹی کے لیے خطرہ بنتے جا رہے تھے۔
نائجیریا میں اب روزانہ کی بنیاد پر ایسے مظاہرے ہو رہے ہیں جن میں حکومت سے طالبات کی بازیابی کے لیے ٹھوس اقدامات پر زور دیا جا رہا ہے۔
پیر کو ایک بیان میں پولیس کمشنر نے کہا ہے کہ ان مظاہروں میں ’خطرناک اور شرپسند‘ عناصر شامل ہو سکتے ہیں۔
بی بی سی کو یہ بھی پتہ چلا ہے کہ گذشتہ ماہ کچھ مغوی طالبات کی رہائی کے لیے بات چیت حتمی مراحل تک پہنچ گئی تھی کہ نائجیریا کی حکومت نے مذاکرات ختم کر دیے۔
بی بی سی کے ول راس کا کہنا ہے کہ ان طالبات کو اسلامی شدت پسندوں کے بدلے رہا کیا جانا تھا۔ بوکو حرام ان لڑکیوں کی رہائی کے بدلے اپنے قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔
نائجیریا کے صدر گڈ لک جوناتھن نے حال ہی میں بوکو حرام کے خلاف ’مکمل جنگ‘ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
29 مئی کو ملک میں فوجی حکومت ختم ہونے کے 15 سال مکمل ہونے پر ’یومِ جمہوریت‘ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’بین الاقوامی دہشت گردی سے نائجیریا کی ترقی کو خطرہ ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے اپنی سکیورٹی فورسز کو حکم دیا ہے کہ وہ ہماری سر زمین پر دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے ایک مکمل فوجی آپریشن شروع کریں۔‘
خیال رہے کہ بوکو حرام نے نائجیریا میں ایک اسلامی ریاست قائم کرنے کے لیے
سنہ 2009 سے پرتشدد کارروائیاں شروع کی ہیں جن میں اب تک ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔