سید منصور آغا
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی ایک حالیہ میٹنگ کی رپورٹ پیش نظر ہے، جس کی سرخی ہے: ’اردو بولنے والے علاقے اور افراد کو روزگارسے جوڑنے کے لئے نئی منصوبہ بندی‘۔ کونسل کے لائق وائس چیرمین کے حوالے سے کہا گیا ہے :’ کونسل کا مقصد اردو کے طلبہ کو ماڈرن تکنیک سے جوڑکر اردوکوروزگار سے جوڑنا ہے۔‘ ڈائرکٹر صاحب کے حوالے سے کہا گیا ہے: ’قومی کونسل ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرنا چاہتی ہے جہاں اردو طلباءخود کفیل بن سکیں۔‘ مذکورہ کونسل کیونکہ وزارت فروغ افرادی وسائل (ایم ایچ آر ڈی) کے تحت ایک سرکاری ادارہ ہے، اس لئے اس کے پروگرام اور پالیسیاں حکومت کی فہم و تدبیر کی آئینہ دار ہیں۔ اردو کے فروغ کے تعلق سے ان کا جائزہ اسی نقطہ نظر سے لیا جانا چاہئے۔
کہا جاتا ہے کہ جب انگریزوں نے ہندستان میں جدید تعلیمی پالیسی نافذ کی اور انگریزی کوداخل نصاب کیا تو اس کا مقصد سرکار چلانے کے لئے کلرک مہیا کرانا تھا۔ آگے چل کر اسی تعلیمی نظام کی بدولت وہ ذہن پیدا ہوئے جو آج ملک کو چلا رہے ہیں۔یہ طے شدہ امر ہے کہ تعلیم اور تربیت کا ہدف افراد کی بااختیاری ہونا چاہئے اوراس ہدف کا حصول ایسی تعلیم اور تربیت سے ہی ممکن ہے جس کی بدولت فرد قومی نظام حکمرانی کا حصہ بن سکے ۔ادنیٰ اور اعلا فرد کی صلاحیت پر منحصر کرتا ہے۔
اردوکے تعلق سے سرکارکی ان پالیسیوں اور پروگراموں میں، جو کونسل کے واسطے سے ظاہر ہوتی رہتی ہیں، ایسا کوئی پہلو نظر نہیں آتا کہ اردو کوبااختیاری کاآلہ بنانا اور اردوداں افراد کے لئے سرکاری ملازمتوں کا بند دروازہ کھولنا مقصود ہو۔ اردو کونسل کے مقاصد کولاکھ خوش نما بناکر پیش کیا جائے، مگر وہ اس حد تک محدود ہیں کہ ’اردو طلبائ‘ اور ’اردو علاقوں‘ (مراد مسلم آبادی) کو خود روزگار کی راہ پر ڈالا جائے اوربس۔ بالفاظ دیگر یہ اعلان کیا جارہا ہے کہ اردوتعلیم یافتہ بااختیاری کا خواب نہ دیکھیں،البتہ ان کو ضمناً کچھ ہنر سکھا دئے جائیں کہ وہ بے روزگار نہ رہیں۔ سول سروسز امتحانات میں اردو ،فارسی اور عربی کے اختیاری مضمون کا اخراج بھی اس طبقہ کو یہی پیغام دیتا ہے کہ وہ ان زبانوں کی بدولت بااختیاری کے مواقع کی امید نہ رکھیں۔
مذکورہ کونسل کے تعاو ن سے عرصہ سے ملک بھر میں کمپیوٹر سنٹر چل رہے ہیں، جن میں چند پروگراموںمیں ڈپلومہ کورس کرایا جاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ان ڈپلومہ کورسز کی بدولت ’ان پیچ‘ ’اکاﺅنٹنگ‘ اور’ کورل ڈرا‘ وغیرہ کے آپریٹر پیدا ہورہے ہیں، جن سے اردوطباعتی اور اخباری اداروںکو تو بڑا سہارا ملا ہے، مگر ان ڈپلومہ اسناد سے کسی سرکاری دفتر میں کلرک کی نوکری بھی نہیں مل سکتی۔ ہمارے علم کی حد تک یہ اسکیم ملک کے اکثر سرکاری تعلیمی کورسز کی طرح بغیر کسی سروے اور منصوبہ بندی کے چل ر ہی ہے۔ چنانچہ آج ہزاروں کمپیوٹر آپریٹرر استحصال کا شکار ہیں۔ان کومحنت کے مقابلے اجرت بہت کم ملتی ہے۔اردو پبلشرز نے عام طور پر کمپیوٹر رکھ لئے ہیں اور معمولی تنخواہوں پر ڈی ٹی پی آپریٹروں سے کام لیتے ہیں۔سرکار کی نظر میں ان افراد کو بہر حال ’برسرروزگار‘کہا جائے گا۔
اردوداں طبقہ کا مطالبہ یہ نہیں ہے کہ اردو دان طبقہ سے بندھوا مزدوروں کی ایک نئی فوج کھڑی کردی جائے ،بلکہ یہ ہے کہ اردوکی تعلیم بھی بااختیاری کا ویسا ہی آلہ بنے جیسا کہ دیگر زبانیں ہیں۔خصوصاً ان ریاستوں اور خطوں میںجہاں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے ،وہاں اردو سرکاری ملازمتوں کے حصول میں معاون ہونی چاہئے۔اصولاً ہونا یہ چاہئے کہ جس ریاست میں کسی بھی زبان کو دوسری سرکاری زبان تسلیم کرلیا گیا ہے ،اس میں اس زبان کی اسناد کو سرکاری ملازمتوں سے جوڑا جائے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ تمام سرکاری عملے پراردو تھوپی جائے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ جن ریاستوں میں اردو دوسری سرکاری زبان ہے ان میں سرکاری بھرتی اور ترقی کے لئے سرکاری بورڈ یا یونیورسٹی کی اردو کی اسناد کو اضافی لیاقت شمار کیا جائے۔ اس کا بالواسطہ فائدہ یہ ہوگا کہ غیر اردوداں بھی اردو پڑھنے پر راغب ہونگیں اور خود بخود دوسری سرکاری زبان کو قبول عام اور فروغ حاصل ہوگا۔اردو ایک دلچسپ اورآسان زبان ہے ۔ اس کو سیکھنا چنداں دشوار نہیں۔ اس لئے سروس کے دوران بھی اس کی اسناد حاصل کی جاسکتی ہیں۔ محض اردو کے اسکول قائم کرنے کے مطالبوں اور تجاویز کو دوہراتے رہنا ، اردو ٹیچرس کی بھرتی کے وعدے لیتے رہنا یا کمپوٹرآپریٹر پیدا کرنامسئلہ کا حل نہیں۔ ہندستان اردو کا گھر ہے۔ یہ ہماری مشترکہ تہذیب کی پروردہ زبان ہے۔ اس کی یہ حیثیت تسلیم اوربحال ہونی چاہئے۔ اس کو کسی مخصوص طبقہ کی زبان قراردیکر پالیسی سازی سے اس کی قومی ورثہ کی حیثیت مجروح ہوتی ہے۔ اس حیثیت کا تقاضا ہے کہ اردو کی آن ،بان، شان اور اس کی روایت کے امینوں میں پنڈت برج موہن دتاریہ کیفی، جگن ناتھ آزاد، رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری،برج نارائن چکبست، آنند نارائن ملا،پروفیسر گوپی چند نارنگ اورپنڈت گلزارزتشی دہلوی جیسی ہستیاں،جو اب ناپید ہوتی جارہی ہیں، پھراپنی بہاریں دکھائیں۔ کونسل سے خاص طور سے گزارش ہے کہ اردو سیکولر روایتوں کی امین ہے، اس کی یہ حیثیت قاری اور قلم کار دونوں حیثیتوں میں پروان چڑھنی چاہئے ۔اگر کونسل کے موجودہ وائس چیرمین اور ڈائرکٹر بھی اس پر متوجہ نہیں ہوئے تو پھر کون ہوگا کہ وہ خود مسلمہ طور پر ان روائتوں کے شیدائی ہیں؟
۹ نومبر’یوم اردو‘
اردو کے تعلق سے سنہ ۷۹۹۱ءسے علامہ اقبال © کے یوم پیدائش ۹ نومبر کو ’اردو ڈے‘ منانے کی جو تحریک حکیم سید احمد خاں نے جناب محفوظ الرحمٰن مرحوم کے مشورے سے شروع کی تھی، اب ایک مقبول عام عالمی تحریک بن گئی ہے۔اس کی بدولت اندرون ملک اور بیرونی ممالک میں ۹ نومبر کو اردو کا غلغلہ بلند ہونے لگا ہے۔
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور قافلہ بنتا گیا
ہندستان کے تناظر میںاس سال اس کا موضوع ’قومی سیاست میںاردو زبان کا کرداراور ہماری ذمہ داریاں‘ تجویز ہوا ہے۔ قومی سیاست میں اردو کے کردار کے دونوں پہلو اہم ہیں۔ ایک وہ تاریخی پہلو جو اردو صحافیوں اور مقررین نے خاص طور سے ملک کی آزادی کی تحریک میں ادا کیا تھا۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ آزادی کے بعدسیاسی مفاد کے لئے اردو کا کس کس طرح استحصال کیاگیا؟رہا اردو کے تعلق سے ذمہ داریوں کا سوال تویہ بیشتر اب اس طبقہ کے سر ہیں جو اس حقیقت کا اعلان کرتے ہیں کہ اردو ایک قومی ورثہ ہے اور ہند کی گنگاجمنی تہذیب کی پروردہ ہے، حالانکہ قومی رہنما یہ بزبان حال یہ کہتے ہیں کہ اردو ’بولنے والے علاقے‘ اور’ افراد‘ کوئی الگ مخلوق ہیں۔ ہرچند کہ گزشتہ ساٹھ سال کے دوران اردو کی خواندگی محدود ہوئی ہے، اس کے باوجود یہ اندیشہ نظر نہیں آتاکہ اردو کو لوگ بھول جائیں گے۔ اردو زبان آج بھی اپنی شیرینی اور دل کشی کی وجہ سے زندہ ہے اور آئند ہ بھی زندہ رہے گی۔ لیکن اس کے معیار میں جو تنزلی آرہی ہے وہ اردو اخبارات سے روز سامنے آتی رہتی ہے، اس پر گرفت کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالات میں اردوداں طبقہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس شمع کی لو کو مدھم نہ ہونے دیں۔ ’اردڈے‘ اسی مقصد کی ایک تدبیر ہے۔ اس تحریک کا مطالبہ ہے کہ ’۹ نومبر‘ کو آپ بھی اپنے محلے، ادارے، بستی یا شہر میں ایک شمع روشن کریں۔ اردو نواز جمع ہوں، اس میں مقامی صحافیوں اورغیر اردوداں افراد کو بھی مدعو کیا جائے ۔ کچھ علم وادب کی باتیں ہوں، کچھ شعر و نغمہ سے محفلوں کو گرمایا جائے تاکہ ہر فرد اردو وراثت سے جڑ سکے ۔
مودی اور پٹیل
نریندر مودی خود تو متنازعہ شخصیت ہیں ہی، انہوں نے سردار پٹیل کی شخصیت پر بھی تنازعہ کھڑا کردیا۔ آزادی کے بعد کانگریس کی باگڈور ان قائدین کے ہاتھوں میں رہی جنہوں نے تحریک آزادی میں قائدانہ رول ادا کیا تھا۔ ان رہنماﺅں نے، جن میں گاندھی جی بھی شامل تھے ، حکومت کی سربراہی کے لئے جواہر لال نہرو کا انتخاب کیا۔اب یہ کہنا کہ نہرو نہیں پٹیل کو وزیر اعظم بنایاجاتا، ان قومی رہنماﺅں کی توہین ہے، جنہوں نے یہ فیصلہ کیا تھا۔مودی کے لئے تو یہ روا ہوسکتا ہے کہ قومی قائدین اور مجاہدین آزادی پر کیچڑ اچھالیں، مگر عوام ان کی اس توہین کو کیسے برداشت کررہے ہیں اور کیوں ’مودی کی ہوا‘ چلنے کے دعوے ہورہے ہیں؟
مودی کے اس بیان پر کانگریس رہنما دگ وجے سنگھ نے بجا طور پر کہا کہ اگر پٹیل وزیر اعظم ہوتے تو آر ایس ایس نہ ہوتی۔ کانگریس میں اس وقت بشمول پٹیل ایسے بہت سے بااثرلیڈر موجود تھے جن کی نظر میں قومی وقار کی بحالی ’ہندو اسمیتا‘ کی آسودگی چاہتی تھی۔ اسی لئے مسجد کو ہٹا کر سومناتھ مندر بنایا گیا، بابری مسجد کو مندر بنانے کے بنا ڈالی گئی۔ اردو کو قومی زندگی سے بے دخل کیا گیا۔ اگر نہرو کی جگہ پٹیل وزیر اعظم ہوتے تو پھر اسی ذہنیت کا بول بالا ہوتا۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں آر ایس ایس کی ضرورت نہ رہ جاتی؟
یہ صحیح ہے کہ انڈین یونین میں دیسی ریاستوں کے انضمام میں بحیثیت وزیر داخلہ پٹیل نے اہم رول ادا کیا تھا، لیکن اس کے ساتھ اس حقیقت کو بھی یادرکھاجائے کہ ملک کی تقسیم کی تجویز پر گاندھی جی کو پٹیل نے ہی آمادہ کیا تھا، جس کے بعدہی کانگریس کے (ہندو) قائدین نے بھی دوقومی نظریہ کی بنیاد پر ملک کی تقسیم کو منظور کرلیا ۔اگر ان کی تعریف دیسی ریاستوں کے انضمام کے لئے کی جاتی ہے تو ملک کی تقسیم میں ان کے رول کو بھی یاد رکھنا ہوگا۔ ہندوفرقہ پرستوں کو پٹیل اس لئے ہیرو نظرآتے ہیں جب نظام حیدرآباد اورنواب جوناگڑھ نے ہند میں انضمام پر آمادگی ظاہر نہیں کی تو ان کے ساتھ زبردستی کی گئی جس کا سہرہ پٹیل کے سر باندھا جاتا ہے۔
ہند کا خلائی مشن
ہند کے خلائی سائنسداں یقینا مریخ خلائی مشن کی کامیاب آغاز کے لئے مبارکباد کے مستحق ہیں۔یہ اس مشن کا پہلا قدم ہے۔راہ میں ابھی کئی اور پڑاﺅ طے کرنے ہیں۔ خلائی ادارے ’اسرو‘نے ملک کی لال فیتہ شاہی اور لیٹ لطیفی کی عام ڈگر سے ہٹ کر جس طرح نہایت کم وقت میں یہ کارنامہ انجام دیا ہے اس میں ہمارے لئے ایک اہم پیغام ہے۔اسرو اور دہلی میٹرو ریل کارپوریشن ہی شاید ملک کے وہ دو ادارے ہیں جو لا ل فیتہ شاہی سے آزاد ہوکر کام کررہے ہیں اور کامیابیوں سے ہم کنار ہورہے ہیں۔ کام کی جو کلچر ان اداروں میں ہے ، کیا وجہ ہے وہ اور کہیں نظر نہیںآتی؟ آخر ہیں تو ان اداروں کو چلانے والے بھی ہندستانی ہی۔ اگر یہ کلچر عام ہوجائے تو ملک کی تصویر اور تقدیر دونوں بدل جائیں۔ اس پہلو پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
حج سنہ۴۳۴۱ھ
حج سنہ۴۳۴۱ھ الحمدللہ بعافیت پایہ تکمیل کو پہنچا۔ اس سال تقریباً دوملین (۰۲لاکھ) فرزندان توحید نے یہ سعادت حاصل کی۔ اتنی بڑی تعداد میں کثیر لسانی و کثیر ملکی عازمین کی آمدواجتماع، قیام ، مناسک حج کی بحفاظت ادائیگی اور پھرگھروں کو واپسی کے لئے جیسے عمدہ انتظامات سعودی حکام نے کئے وہ یقینا لائق ستائش ہیں۔اس سال ہندستانی حج کمیٹی کے انتظامات بھی چست اور درست رہے ۔ سعودی انتظامیہ اور حج کمیٹی کے حکام اورکارکنان کوان خدمات کے لئے اللہ جزائے خیر دے اور حجاج کرام کے سفر کو شرف قبولیت سے نوازے۔آمین ۔ سب کی خدمت میں مبارکباد۔