امریکہ کے نائب صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ سنی جنگجووں کی پیش قدمی روکنے کے لیے عراق کو فوری مدد کی ضرورت ہے۔ لیکن انہوں نے یہ واضح نہیں کیا ہے کہ آیا امریکہ عراق کی کوئی مدد کرنے والا ہے یا نہیں۔
منگل کو برازیل کے دارالحکومت برازیلیا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی نائب صدر نے عراقی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ ملک میں جاری فرقہ وارانہ تشدد ختم کرنے کے لیے تمام حلقوں کو ساتھ لے کر چلیں۔
لیکن امریکی نائب صدر اور دیگر مغربی ملکوں کی اپیلوں کے باوجود عراق کی شیعہ حکومت نے ملک کی سنی اقلیت کو قومی دھارے میں لانے کی کوشش کرنے کے بجائے عراق کی سنی جماعتوں کے مرکزی اتحاد کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔
عراقی حکومت نے سعودی عرب پر ملک کے شمالی حصوں پر قابض اسلام پسند سنی جنگجووں کی پشت پناہی کرکے عراق میں “نسل کشی” کو فروغ دینے کے الزامات بھی عائد کیے ہیں۔
عراقی حکومت کے اس اقدام کے بعد اندیشہ ہے کہ ملک میں جاری شیعہ سنی کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا جو پہلے ہی رواں سال اب تک ہزاروں جانیں نگل چکی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق امریکہ واضح کرچکا ہے کہ اگر عراق حکومت کو جنگجووں کے مقابلے پرامریکی مدد چاہیے تو اسے ملک کی سنی اقلیت کے تحفظات دور کرنے کے لیے اس کی نمائندہ سیاسی جماعتوں کو قومی دھارے میں لانا ہوگا۔
لیکن عراق کے وزیرِاعظم نوری المالکی کی شیعہ حکومت نے امریکہ کے اس مطالبے کے بالکل برعکس عمل کرتے ہوئے “غدار” سیاسی رہنماؤں اور سرکاری حکام کے خلاف کارروائی کرنے کا اعلان کرتے ہوئے پڑوسی سنی ملکوں پر عراق میں عسکریت پسندی کو ہوا دینے کا الزام عائد کردیا ہے۔
منگل کو عراقی حکومت کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ عراق کی حکومت پڑوسی سنی ملکوں، خاص طور پر سعودی عرب کو “ملک میں سرگرم شدت پسند گروہوں کی مالی اور اخلاقی مدد کرنے، ان کی جانب سے نسل کشی جیسے جرائم کے ارتکاب، عراقیوں کا خون بہانے، اور عراق کے ریاستی اداروں اور تاریخی اور مذہبی مقامات کی تباہی” کا ذمہ دار سمجھتی ہے۔
نوری المالکی کی حکومت اس سے قبل بھی اشاروں کنایوں میں سعودی عرب کی حکومت پر عراق میں سرگرم سنی شدت پسندوں کی مدد کرنے کا الزام عائد کرتی رہی ہے لیکن اس بار سرکاری بیان میں ماضی کے برعکس سعودی حکومت کے خلاف انتہائی سخت زبان استعمال کی گئی ہے۔
عراق کے شیعہ وزیراعظم نوری المالکی کی حکومت ملک کے شمال میں شورش بپا کرنے والے مزاحمت کاروں کی پیش قدمی کو روکنے میں تو ناکام رہی ہے لیکن اس نے اب سعودی عرب پر اسلامی جنگجوؤں اور قبائلی فورسز کی پشتی بانی کا الزام عاید کر دیا ہے۔
نوری المالکی کے دفتر کی جانب سے منگل کو جاری کردہ بیان میں سعودی عرب پر سیدھے سبھاؤ دہشت گردی کی طرف داری کا الزام عاید کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ”ہم اس موقف کی سختی سے مذمت کرتے ہیں۔یہ گروپ مالی اور اخلاقی امداد کی شکل میں جو کچھ وصول پا رہے ہیں،ہم سعودی عرب کو اس کا ذمے دار گردانتے ہیں”۔
اس بیان میں دو قدم اور آگے جا کر یہ کہا گیا ہے کہ ”سعودی حکومت کو ان دہشت گرد گروپوں کے خطرناک جرائم کا ذمے دار ٹھہرایا جانا چاہیے”۔عراقی وزیراعظم کے اس سخت بیان سے ایک روز قبل سعودی عرب نے عراق میں وزیراعظم نوری المالکی کی فرقہ وارانہ اور دوسروں کو دیوار سے لگانے کی پالیسیوں کی مذمت کی تھی اور وہاں قومی اتحاد کی حکومت تشکیل دینے پر زور دیا تھی۔
سعودی حکومت نے ایک بیان میں کہا کہ ”اگر عراق میں گذشتہ برسوں کے دوران فرقہ وارانہ اور دیوار سے لگانے کی پالیسیوں کو اختیار نہ کیا جاتا تو حال ہی میں رونما ہونے والے واقعات پیش نہ آتے۔ان پالیسیوں نے عراق کی سلامتی ،استحکام اور خود مختاری کو خطرات سے دوچار کردیا ہے”۔
سعودی حکومت نے عراق کے داخلی امور میں کسی بھی غیر ملکی مداخلت کو مسترد کردیا ہے اور اس کی خود مختاری ،اتحاد اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کی ضرورت پر زوردیا ہے۔اس کے علاوہ اس نے عراق میں جلد سے جلد قومی اتحاد کی حکومت تشکیل دینے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ ملک میں سکیورٹی اور استحکام کو بحال کیا جاسکے۔
اس نے پڑوسی ملک میں مذہبی اور فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی پر مبنی پالیسیوں سے بھی گریز کا مشورہ دیا ہے۔عراقی وزیراعظم نے اس مشورے پر تو کوئی کان نہیں دھرے البتہ انھوں نے سعودی عرب پر اسلامی جنگجوؤں کی حمایت کا الزام عاید کردیا ہے لیکن انھوں نے ایران کی عراق میں مداخلت کے حوالے سے کچھ نہیں کہا ہے۔
عراق کے ایک سینیر عہدے دار نے ہفتے کے روز گارجین کو بتایا تھا کہ ایران نے ملک کے شمال میں برسرپیکار انتہا پسند جہادیوں کے خلاف لڑائی کے لیے قریباً دو ہزار فوجی بھیجے ہیں۔اس عہدے دار کے بہ قول ایران کی باسیج ملیشیا کے پندرہ سو اہل کار گذشتہ جمعہ کی رات سرحد عبور کر کے وسطی صوبے دیالا کے قصبے خانقین میں پہنچے تھے۔پانچ سو اور اہلکار صوبے واسط کے علاقے بدرا جاسن میں داخل ہوئے تھے۔
ایران کے پاسداران انقلاب کی ایلیٹ القدس فورس کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی بھی مبینہ طور پر بغداد پہنچے تھے اور انھوں نے عراقی دارالحکومت کی دفاعی تیاریوں کا جائزہ لیا تھا۔ایرانی صدر حسن روحانی نے ہفتے کے روز القاعدہ سے متاثر گروپ دولت اسلامی عراق وشام (داعش) کے جنگجوؤں کے مقابلے میں عراق کی مدد کا اعلان کیا تھا۔انھوں نے عراق میں داعش اور مقامی جنگجوؤں کو شکست دینے کے لیے امریکا کے ساتھ تعاون کا بھی اعلان کیا تھا۔
لیکن امریکی محکمہ دفاع پینٹاگان نے اس پیش کش کو ٹھکرا دیا تھا اور کہا تھا کہ روایتی دشمن ملک کے ساتھ کوئی رابط یا مشاورت نہیں کی جائے گی۔پینٹاگان کے ترجمان رئیر ایڈمرل جان کربی نے سوموار کو ایک بیان میں کہا کہ امریکا اور ایران کے درمیان کسی قسم کی فوجی سرگرمی کے حوالے سے رابطہ کاری کا نہ تو کوئی منصوبہ ہے اور نہ ایسا کوئی ارادہ ہے۔عراق میں فوجی سرگرمی سے متعلق ایران سے کوئی مشاورت نہیں کی جائے گی۔
قبل ازیں امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے یاہو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایران کے ساتھ عراق میں جاری بحران کے حوالے سے تعاون کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ”میں ایسے کسی امکان کو مسترد نہیں کررہا ہوں ،جو تعمیری ہے”۔
…………………
عراق میں عسکریت پسندوں نےبعقوبہ کے ایک حصے پر قبضہ کرلیا۔ عراق کی صورتحال پر امریکا اور ایران سرجوڑ کر بیٹھ گئے۔۔ برطانیہ نےایران میں سفارتخانہ دوبارہ کھولنےکا اعلان کردیا
بغداد سے ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر سکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں میں زبردست لڑائی جاری ہے۔ باغیوں نے پولیس اسٹیشن سمیت بعقوبہ کےایک حصے کا کنٹرول حاصل کرکے ہتھیاروں پر قبضہ کرلیا، عراقی جیل پر حملے میں چوالیس قیدی مارے گئے۔ ادھر ایٹمی تنازع پر ویانا مذاکرات کے موقع پرامریکی اور ایرانی نمائندوں نے بند کمرا مذاکرات میں عراق کی صورتحال پر غور کیا۔
برطانیہ نے عراق کے معاملے پر ایران سے بڑھتے ہوئے رابطوں کے پیش نظر اپنا سفارتخانہ دوبارہ کھولنےکا اعلان کردیا ہے جو محدود خدمات انجام دے گا۔ دوسری جانب امریکی صدرنے عراق میں امریکی تنصیبات کی سیکورٹی کے لئے دو سو پچھتر فوجیوں کی تعیناتی کا حکم دےدیاہے۔ اقوام متحدہ نے عراق میں آئی ایس آئی ایل کے ہاتھوں سترہ سو فوجیوں کے قتل پر تشویش کا اظہار کیا ہے
عراق میں قومی سیکیورٹی سے متعلق ذرائع نے بتایا ہے کہ بغداد کے شمال مشرقی شہر بعقوبہ میں پولیس چوکی پر حملے میں 44 افراد ہلاک ہو گئے۔
ادھر نوری المالکی کی وفادار فوج نے دارلحکومت سے ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بعقوبہ شہر پر مسلح جنگجووں کے حملے کو پسپا کرنے کا دعوی کیا ہے۔
دجلہ آپریشن کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عبدالامیر محمد رضا الزیدی نے ‘اے ایف پی’ کو بتایا کہ مسلح افراد نے خودکار ہتھیاروں سے بعقوبہ پر حملہ کیا، جسے سیکیورٹی فورس نے پسپا کر دیا ہے۔
ادھر سرکاری فوج کے لیفٹیننٹ کرنل نے تصدیق کی ہے مسلح جنگجووں نے بعقوبہ کے مرکز اور مغربی علاقے میں الکاطون، المفرق اور المعلمین کالونیوں پر کئی گھنٹے قبضہ کیے رکھا، تاہم اس کے بعد عراقی فوج جنگجووں سے ان کالونیوں کا قبضہ چھڑانے میں کامیاب ہو گئی۔
عراق کے مختلف علاقوں میں جنگجووں کی تقریبا ایک ہفتے سے جاری مسلح کارروائیوں کے بعد سے ابتک دیالی گورنری کے شہر بعقوبہ پر یہ پہلا حملہ تھا۔
دولت اسلامی عراق و شام ‘داعش’ کے مسلح جنگجووں نے بغداد سے 360 کلومیٹر شمال میں نینوی گورنری کے صدر مقام موصل سمیت کے بڑے علاقوں کا کنڑول حاصل کر لیا ہے۔ قبضے میں لئے جانے والے علاقوں میں صدام حسین کا آبائی شہر تکریت [بغداد سے 160 کلومیٹر شمال] اور صلاح الدین گورنری کا صدر مقام شامل ہیں
…………
امریکہ کے صدر براک اوباما نے عراق میں امریکی سفارت خانے اور وہاں تعینات عملے کے افراد کی حفاظت کے لیے 275 اہلکاروں پر مشتمل لڑاکا فوجی دستہ عراق بھیجنے کی منظوری دیدی ہے۔
صدر اوباما کی جانب سے کانگریس کو بھیجے جانے والے ایک خط میں کہا گیا ہے کہ فوجی دستے کی عراق روانگی کا مقصد وہاں موجود امریکی شہریوں اور تنصیبات کی حفاظت یقینی بنانا ہے۔
صدر نے اپنے خط میں کہا ہے کہ یہ فوجی ضرورت پڑنے پر جنگی صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کے اہل ہیں اور سکیورٹی کی صورتِ حال بہتر ہونے تک عراق میں موجود رہیں گے۔
پیر کو بھیجنے جانے والے اس خط میں صدر اوباما نے اراکینِ کانگریس کو بتایا ہے کہ فوجی دستہ عراق بھیجنے کا فیصلہ عراقی حکومت کی مشاورت اور رضامندی سے کیا جارہا ہے۔
صدر اوباما اسلام پسند سنی العقیدہ جنگجووں کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے امریکی فوج عراق بھیجنے کا امکان رد کرچکے ہیں لیکن ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا ہے کہ جنگجووں کے خلاف عراقی حکومت کو ہر ممکن مدد فراہم کی جائے گی۔
پیر کو امریکی صدر نے قومی سلامتی کے امور پر اپنے مشیروں کے ساتھ ملاقات بھی کی جس میں، وہائٹ ہاؤس’ کے مطابق، عراق کی صورتِ حال اور اس سے نبٹنے کے طریقوں پر غور کیا گیا۔
امریکی ذرائع ابلاغ کا دعویٰ ہے کہ فوجی دستے عراق بھیجنے سے انکار کے بعد اوباما انتظامیہ کے زیرِ غور سرِ فہرست قدم شمالی عراق کے بڑے حصے پر قابض جنگجووں کے ٹھکانوں اور مراکز کو فضا سے بمباری کا نشانہ بنانا ہے۔
امریکی محکمۂ دفاع ‘پینٹاگون’ کے حکم پر امریکی فوج کا ایک طیارہ بردار جنگی جہاز پہلے ہی عراق کے نزدیک کھلے سمندر میں پہنچ چکا ہے۔
امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ جنگجووں کے خلاف کارروائی کے لیے ایران کے ساتھ بھی تعاون کرنے پر غور کر رہی ہے۔ لیکن ‘پینٹاگون’ نے واضح کیا ہے کہ عراق میں کارروائی کی غرض سے امریکہ اور ایران کے درمیان کسی قسم کا فوجی تعاون زیرِ غور نہیں۔’القاعدہ’ سے الگ ہونے والی اسلام پسند جنگجو تنظیم ‘الدولۃ اسلامیۃ فی العراق الشام (داعش)’ نے گزشتہ ہفتے عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر قبضہ کرلیا تھا جس کے بعد جنگجو بغداد کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔
عراق کی شیعہ حکومت کے خلاف برسرِ پیکار ان سنی جنگجووں نے شیعہ مسلک کے اہم مذہبی مقام کربلا اور دارالحکومت بغداد پر بھی قبضے کی دھمکی دی ہے جس پر ان سے مقابلے کے لیے شیعہ رہنماؤں کی اپیل پر رضاکار لشکر بھی تیار کیے جارہے ہیں۔
جنگجووں نے بغداد کے راستے میں آنے والے کئی چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں کا بھی کنٹرول سنبھال لیا ہے جہاں کے رہائشی لاکھوں کی تعداد میں حکومت کے زیرِ انتظام علاقوں کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں۔