یو این ایچ سی آر کی رپورٹ کے مطابق 63 لاکھ افراد ایسے ہیں جو کسی نہ کسی وجہ سے واپس نہیں گئی اور برسوں بلکہ دہائیوں سے مہاجر ہیں
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر ) کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں جنگ یا لڑائی کے باعث جبراً نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد پانچ کروڑ تک پہنچ گئی ہے جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد سب سے بڑی تعداد ہے۔
مہاجرین کی مجموعی تعداد پانچ کروڑ 20 لاکھ ہے جو گذشتہ سال کے مقابلے میں 60 لاکھ زیادہ ہے۔
یو این ایچ سی آر کے سربراہ انتونیو گٹیرس نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ مہاجرین کی تعداد میں یہ اضافہ امدادی اداروں کے لیے ایک ڈارامائی چیلنج ہے۔
شام، وسطی افریقہ اور جنوبی سوڈان میں جاری لڑائی کے باعث اس تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
انتونیو گٹیرس کا کہنا ہے کہ ’لڑائیاں دوگنی چوگنی ہوتی جا رہی ہیں اور ساتھ ہی ایسا لگ رہا ہے کہ پرانی لڑائیاں کبھی ختم نہیں ہوگی۔‘
یو این ایچ سی آر کی رپورٹ کے مطابق 63 لاکھ افراد ایسے ہیں جو کسی نہ کسی وجہ سے واپس نہیں گئی اور برسوں بلکہ دہائیوں سے مہاجر ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق طویل بے گھری کی حالت میں رہنے والوں میں 25 لاکھ افغان باشندے ہیں۔ اس وقت بھی دنیا میں سب سے زیادہ مہاجر افغان ہی ہیں اور کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے پاکستان میں اس کے سب سے زیادہ مہاجر آباد ہیں جن کی تعداد تقریباً 16 لاکھ ہے۔
صرف شام ہی میں 65 لاکھ افراد بے گھر ہیں
دنیا بھر میں ہزاروں مہاجرین نے اپنی زندگیوں کے بہترین اوقات خیمہ بستیوں میں گذارے اور وہ بے گھرے کا باعث بننے والے بحرانوں کو تقریباً بھلا چکے ہیں۔
برما کے ساتھ ملحق تھائی لینڈ کی سرحد پر برما کے کیرن اقلیت کے ایک لاکھ بیس ہزار افراد 20 برس سے زائد عرصے سے مہاجر بستیوں میں مقیم ہیں۔
اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ مہاجرین کو زبردستی واپس نہیں بھیجا جانا چاہیے اور اس وقت تک واپس نہیں جانا چاہیے جب تک کہ یہ محفوظ نہ ہو اور ان کے پاس گھر نہ ہوں جہاں وہ لوٹ سکیں۔ انہی میں کینیا کے داداب کیمپ میں مقیم میں تین لاکھ صومالی مہاجر بھی شامل ہیں۔‘
اقوامِ متحدہ کا ادارہ تسلیم کرتا ہے کہ بعض خیمہ بستیاں مستقل حیثیت اختیار کر گئی ہے جن میں سکول، ہسپتال اور کاروبار قائم ہیں لیکن یہ کبھی گھر نہیں بن سکتیں۔
لیکن دنیا میں بے گھر افراد کی اس سے بھی کہیں زیادہ ہو جاتی ہے اگر ان میں آئی ڈی پیز یعنی اپنے ہی ملک میں بے گھر ہونے والے افراد کو شامل کریں۔
صرف شام ہی میں 65 لاکھ افراد بے گھر ہیں۔ شام کی لڑائی کے باعث کئی خاندان ایک سے زیادہ مرتبہ بے گھر ہوئے۔ ان کے لیے خوراک، پانی، قیام اور طبی سہولت تک رسائی محدود رہی اور لڑائی والے علاقے کے اندر ہی رہنے کی وجہ سے امدادی اداروں کا ان تک پہنچنا مشکل تھا۔
کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے پاکستان میں اس کے سب سے زیادہ مہاجر آباد ہیں جن کی تعداد تقریباً 16 لاکھ ہے
اقوامِ متحدہ کے اندازوں کے مطابق دنیا بھر میں 33 کروڑ سے زائد بے گھر افراد ہیں۔
بڑی تعداد میں بے گھر افراد وسائل کی تلاش میں نئے علاقوں میں جا رہے ہیں اور حتی کہ یہ میزبان ممالک کو غیر مستحکم کرنے کا باعث بھی بن رہے ہیں۔
شام کے بحران کے دوران اردن، لبنان اور ترکی نے اپنی سرحدیں کھلی رکھیں۔ اس وقت لبنان میں دس لاکھ سے زائد مہاجرین ہیں یعنی اس کی مجموعی آبادی کا ایک چوتھائی شامی باشندے ہیں۔ ان کے لیے رہائش گاہوں، تعلیم اور صحت کی سہولیات کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق مہاجرین کی دیکھ بھال کا زیادہ تر بوجھ ان ممالک پر ہے جو خود کمزور ہیں۔ ترقی پذیر ممالک دنیا بھر کے مہاجرین کی 86 فیصد تعداد کے میزبان ہیں جبکہ دولت مند ممالک محض 14 فیصد کا خیال رکھ رہے ہیں۔ یورپ میں پناہ کی تلاش میں آنے والے تارکینِ وطن کے حوالے سے بڑھتے ہوئے خدشات کے باوجود یہ فرق بڑھتا جا رہا ہے۔ دس برس قبل دولست مند ممالک 30 فیصد اور ترقی پذیر ممالک 70 فیصد مہاجرین کے میزبان تھے۔
انتونیو گٹیرس کے مطابق یورپ کو اس حوالے سے مزید اقدامات کرنے چاہییں۔
لیکن اقوامِ متحدہ کی امدادی ایجنسیوں کے لیے سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ ایک طرف تو انھیں مہاجرین کی مدد کے لیے کہا جاتا ہے لیکن دوسری جانب اقوامِ متحدہ کے سیاسی دھڑے اور سکیورٹی کونسل ان لڑائیوں کو ختم کرنے یا انھیں روکنے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔