پالو الٹو (کیل فورنیا)، 6 نومبر: یہ انکشاف ہونے کے بعد کہ امریکہ بہت بڑے پیمانہ پر انٹرنیٹ کی جاسوسی کر رہا ہے اب اسے سائبر اسپیس کے ضابطوں اور قوانین کے نفاذ پر دوسرے ملکوں کو راضی کرنے میں دقت پیش آئے گی۔ یہ بات تجزیہ نگاروں اور صنعت کاروں نے ایک کانفرنس میں کہی ہے۔
قومی سلامتی ایجنسی کے سابق ایجنٹ ایڈورڈ اسنوڈن نے امریکہ کی بڑے پیمانہ پر دوسرے ممالک کے رابطوں کی جاسوسی کا پردہ فاش کیا ہے جس کے بعد اب امریکہ انٹرنیٹ کے ضابطوں پر زور نہیں دے سکے گا۔
ہوور انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر ایبے سوفئر نے ایسٹ ویسٹ انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام بین اقوامی سائبر سیکورٹی تعاون پر چوتھی سالانہ میٹنگ میں کہا “اب ہم چین ، روس اور دیگر ممالک سے اپنی بات نہیں منوا سکتے جو اقوام متحدہ اور حکومتوں کو زیادہ خود مختاری دیئے جانے کے حق میں ہیں۔ یہ بہت تکلیف دہ ہے”۔
چین چاہتا ہے کہ مختلف ممالک کے ماہرین پر مشتمل اقوام متحدہ کے گروپ کو ضابطوں پر بات چیت میں زیاد ہ بڑا رول دیا جائے جبکہ امریکہ چاہتا ہے کہ یہ عام ضابطے عام ہوں اور ان کا اطلاق لازمی نہ ہو ۔اس کا کہنا ہے کہ اگر عالمی ادارے کو زیادہ کنٹرول دے دیا گیا تو اس سے پرائیوٹ کمپنیوں کے کام کاج متاثر ہوگا ۔ واضح رہے کہ اس شعبہ میں زیادہ تر بڑی پرائیوٹ کمپنیاں امریکی ہیں۔
اس کانفرنس میں 40 سے زیادہ ممالک کے سینئر افسران ماہرین تعلیم اور کارپوریٹ افسر حصہ لے رہے ہیں وہ انٹرنیٹ کی سیکورٹی کے بارے میں تال میل سدھارنے کے لئے ایک نظام قائم کرنا چاہتے ہیں۔
چین کا کہنا ہے کہ ہمیں قدم بہ قدم آگے بڑھتے ہوئے ایک منصفانہ اور شفاف نظام وضع کرکے سائبر اسپیس کو منظم او رباضابطہ بنانا چاہئے۔
اس میں ایک بڑا مسئلہ لوگوں کی نجی زندگی کی رازداری کا ہے۔ دوسری طرف کمپنیوں کا کہنا ہے کہ زیادہ کنٹرول سے معاشی ترقی رک جائے گی ان کا کہنا ہے کہ زیادہ ضابطوں سے انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کا اعتماد ختم ہوگا۔ سنوڈن نے جن کا غذا ت کو عام کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ تمام انٹرنیٹ کمپنیوں کے ذریعہ لوگوں کے رابطوں کی نگرانی کرتا ہے۔