نئی دہلی، ۶ نومبر: اس استدلال کے ساتھ کہ وقف ترمیمی ایکٹ 2013 وقف املاک کے تحفظ میں نمایاں کردار ادا کرے گا ،اقلیتی امور کے مرکزی وزیر رحمان خاں نے آج کہا کہ نئے تقاضے کل پھر ترمیم کی راہ ہموار کریں گے اور ان سے بھی نبر د آزما ہونا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ نئے وقف ایکٹ کے توسط سے ،جسے تمام ذمہ داران کے مشورے سے بنایا گیا ہے، وقف املاک کی حفاظت کا ایک نیا ہتھیار مل گیا ہے۔اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم کس طرح اس ایکٹ کا نفاذ عمل میں لاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نیک نیتی سے اس ایکٹ کو نافذکرانے میں کامیابی ملی تو ہماری معاشی، سماجی اور تعلیمی بدحالی دور ہوسکتی ہیاور اس کے لئے ہمیں دوسروں کے دروازے پر دستک دینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔وہ وقف ترمیمی ایکٹ پر منعقدہ قومی کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
پورے ملک سے آئے وقف بورڈ کے سربراہوں، چیف ایگزی کیوٹیو افسروں اور دیگر ذمہ داران سے مسٹر خان نے کہا کہ کوئی بھی قانون حتمی نہیں ہوتا ہے بوقت ضرورت اس میں ترمیم اور تبدیلی کی جاتی ہے ۔حالات کے تقاضوں کو محسوس کرتے ہوئے پہلا وقف ایکٹ ۴۵۹۱ میں بنا جس میں ۵۹۹۱ میں ترمیم کی گئی باوجودیکہ جو کمی رہ گئی تھی اسے دور کرکے وقف ترمیمی ایکٹ 2013وجود میں آیا ہے۔ اس میں بھی آئندہ ترمیم کی ضرورت پیش آئے گی ۔ بہ الفاظ دیگر بہتری کی گنجائش ہمیشہ برقراررہتی ہے۔
وقف کونسل کے زیر اہتمام اس کانفرنس میں وقف کی اہمیت اور شرعی حیثیت پر رائے زنی کرتے ہوئیمسٹر رحمان خاں نے کہا کہ وقف اللہ کی ملکیت ہے اور ہماریپاس اس کی حیثیت ایک امانت کی ہے۔ ہمیں اس ذمہ داری کا احساس ہونا چاہئے۔
وقف کی اتنی بڑی دولت کی موجودگی میں ملت کے پریشان حال رہنے کو موجب افسوس قرار دیتے ہوئے مسٹر خان نے کہا کہ ہمیں ذمہ داری طے کرنے کے ساتھ ساتھ واقف کے منشا کا بھی خیال رکھنا چاہئے ورنہ ہم اپنی ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر رہیں گے۔
انہوں نے کہاکہ وقف ایکٹ 1995 میں بھی وقف ڈیولپمنٹ کا تھوڑا اہتمام تھا لیکن وقف ایکٹ 2013 میں اس پر خاص توجہ دی گئی ہے ۔ انہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ زمین اگر ڈیولپ نہیں ہوگی تو اس پر قبضہ کا خطرہ ہمیشہ برقرار رہتا ہے۔ جب زمین ہی خالی نہیں رہے گی تو اس پر کون قبضہ کرے گا۔ لاکھوں ایکڑ زمین وقف کی خالی پڑی ہیں اسے ڈیولپ کرکے ملت کے کاموں میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔
وقف املاک پر قبضہ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وقف املاک خواہ حکومت یا حکومت کی ایجنسیوں کے پاس کیوں نہ ہوں اگر ان کے پاس وقف کی دستاویزات نہیں ہیں یعنی وقف ڈیڈ یا اسی طرح کے کاغذات نہیں ہیں تو انہیں قابض سمجھا جائے گا اور جائیداد خالی کرائی جائے گی۔ نئے ایکٹ میں سزا کی بھی باقاعدہ گنجائش ہے۔ 52 اے کے تحت قابضین کو سزا دی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ اس ایکٹ میں اہم ترمیم یہ ہے کہ اس سیقبل وقف املاک کی نگرانی یا لائحہ عمل تیار کرنے سے متعلق کوئی بااختیار ادارہ نہیں تھا۔سنٹرل وقف کونسل محض مشورے دے سکتی تھی ۔ اس کے مشورے کی پابندی لازمی نہیں تھی ،لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ سنٹرل وقف کونسل کو اختیارات دئے گئے ہیں۔ اب یہ صرف مشاورتی باڈی نہیں بلکہ بااختیار باڈی ہے۔
مسٹر رحمان خان نے وقف بورڈوں میں پیشہ وارانہ کمی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں نے 1972 سے وقف کے معاملات میں دلچسپی لی ہے اور وقف کے معاملات میں متولیوں کا رویہ انتہائی مایوس کن ہوتا ہے وہ نہ تو وقف املاک کا حساب رکھتے ہیں اور نہ ریٹرن فائل کرتے ہیں جس سے وقف کی آمدنی کے بارے میں اندازہ لگایا جاسکے۔ مگر اب ریٹرن بھرنا لازمی ہے اور متولی کو عہدے سے ہٹایا بھی جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس ایکٹ میں پروفیشنل ازم لانے کی کوشش کی گئی ہے اور کثیر رکنی ٹریبونل کا اہتمام کیا گیا ہے جس کا مقصد سرگرمیوں کو مکمل طور پر پیشہ وارانہ بنانا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وقف املاک کا کرایہ یا لیز اب بازار کے حساب سے طے کیا جائے گا جس سے وقف بورڈوں کو خاطر خواہ آمدنی ہوگی۔
مسٹر رحمان نے وقف بورڈوں کی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وقف املاک کی کمپیوٹرائزیشن کے لئے مرکز نے تمام وقف بورڈوں کو 25 کروڑ روپے دئے تھے لیکن کمپیوٹرائزیشن کایہ حال ہے کہ اب تک تین لاکھ 26 ہزار وقف املاک میں سے محض 50 ہزار وقف املاک کی تفصیلات کمپیوٹرائزکی جاسکی ہیں۔انہوں نے کہا کہ اب حکومت نے طے کیا ہے کہ آؤٹ سورسنگ کے ذریعہ کمپیوٹرائزیشن کا کام چند ماہ میں مکمل کرایاجائے گا۔
انہوں نے کمپیوٹرائزیشن کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر تمام وقف املاک ک کمپیوٹرائز ہوجائیں تو معاملات میں شفافیت آئے گی اور سب کو معلوم ہوسکے گا کہ کہاں کہاں وقف املاک موجود ہیں ۔اس طرح قبضہ روکنے میں خاطر خواہ مدد ملے گی۔