عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق پیر چار نومبر کو شروع ہونے والے کریک ڈاؤن میں اب تک سعودی عرب کی شاہی سیکیورٹی فورسز اب تک ہزاروں غیرقانونی ورکروں کو ملک بھر سے گرفتار کرچکی ہیں، صرف مکہ کے صوبے سے پانچ ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ سعودی عرب سے غیر قانونی تارکین وطن کے لیے رضاکارانہ طور پر واپس اپنے ملکوں کو جانے کے لیے دستاویزات کو قانونی شکل دینے کی مہلت پیر کے روز ختم ہو گئی تھی۔ اس مہلت کے حوالے سے جنگ زدہ ملک شام کے شہریوں کو استثنا حاصل ہو گا۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق اس بات کا اعلان سعودی وزیر محنت کی طرف سے کیا گیا تھا، واضح رہے سعودی حکومت نےرواں سال 3 اپریل کو غیر قانونی بنیادوں پر کام کے لیے رکنے والے غیر ملکیوں کو تین ماہ کی مہلت دینے کا اعلان کیا تھا کہ وہ قانونی دستاویزات تیا کروالیں، یا سعودی عرب سے چلے جائیں۔
لیکن بعد میں سعودی حکومت نے متعلقہ ملکوں کی درخواست اور انسانی بنیادوں پر اس مہلت میں چار ماہ کی توسیع کر دی تھی۔ اس مہلت کے خاتمے کے بعد سعودی وزارت محنت کے ترجمان خطاب العنزی نے اتوار کو یہ واضح کردیا کہ حکومت کا اس مہلت میں مزید اضافے کا کوئی ارادہ نہیں۔
اس سے پہلے وزارت محنت نے اعلان کیا تھا کہ جو سعودی یا غیر سعودی شہری کسی غیر قانونی تارک وطن کو پناہ دیں گے، ان کو دوسال قید یا ایک لاکھ سعودی ریال کا جرمانہ کیا جاسکتا ہے ، یہ دونوں سزائیں اکٹھی بھی دی جاسکتی ہیں۔
پھر بعد میں ترجمان نے کہا کہ ہم گھروں کے اندر گھس کر ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کا ارادہ نہیں رکھتے۔ وزارت محنت نے یہ بھی اعلان کیا کہ جو غیر ملکی سعودی عرب میں اپنے قیام اور کام کو قانونی شکل دینے کی کوشش کررہے ہیں، انہیں بھی گرفتار نہیں کیا جائے گا۔
ان سات مہینوں کی مہلت کے دوران چوبیس لاکھ تارکین وطن محنت کشوں نے جرمانوں سے بچنے کے لیے اپنے ویزا کی نوعیت تبدیل جبکہ نو لاکھ نے اپنے ختم ہوجانے والے ویزوں کی مدت میں توسیع کروالی تھی۔
سعودی عرب کے شہری اور رہائشی کل بروز منگل کی صبح بیدار ہوئے تو انہیں اس دن زندگی مفلوج سی محسوس ہوئی، اس لیے کہ غیرقانونی تارکین وطن ہی ان کی بنیادی سہولتوں کےمعاملات میں اپنی خدمات فراہم کرتے ہیں، جو گرفتاریوں کے خوف سے اپنے گھروں سے باہر ہی نہیں نکلے۔
اے ایف پی کے مطابق سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں جہاں ہر طرف چہل پہل اور بھاگ دوڑ سی محسوس ہوتی ہے، کل مکمل طور پر بند نظر آیا۔ تعمیراتی کام بعض مقامات پر سست رفتاری کے ساتھ جاری رہا، جبکہ تقریباً پورے ملک میں بیکریاں منگل کے روز بند رہیں۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ لکھتا ہے کہ سڑکوں پر لوگوں کی بہت کم تعداد نظر آئی، ٹیکسیاں بہت کم تھیں، اس لیے ٹیکسی ڈرائیوروں نے منہ مانگے دام وصول کیے، مارکیٹیں ویران پڑی تھیں، اطلاعات کے مطابق بہت سے تجارتی اداروں اور ہسپتالوں میں لوگ کام پر نہیں پہنچ سکے۔
ایک سعودی شہری نے صورتحال کاخلاصہ یوں بیان کیا ”ایسا لگتا ہے کہ یہ ملک غیرقانونی تارکین وطن سے بھرا ہوا تھا۔ دکانیں بند ہیں، سڑکیں خالی پڑی ہیں، ریسٹورنٹس بھی خالی ہیں۔ میں خود ایک اک کر کے گنا تو سڑک پرموبائل فون کی تیس دکانیں بند تھیں۔خدا ہماری مدد کرے اس شہر کے لوگ کہاں چلے گئے؟“
سعودی عرب کے جنوب مغرب میں یمن کی سرحد کے ساتھ واقع جیزان صوبے کا دارالحکومت جازان، اقتصادی لحاظ سے اہم ترین شہر مانا جاتا ہے۔ یہاں لوگوں کی ایک بڑی تعدادکا کہنا تھا کہ وہ صبح اپنے کام پر بغیر استری کیے ہوئے کپڑے پہن کر نکلے، اس لیے کہ زیادہ تر لانڈریاں بند تھیں۔
جازان کے محمد قسیم نے عرب نیوز کو بتایا کہ ”جب میں نے دیکھا کہ لانڈری کے دروازے بند ہیں، اور میرے کپڑے بھی لانڈری والوں کے پاس ہی ہیں، تو میرے لیے کوئی چارہ نہ تھا کہ میں خود ہی اپنے کپڑے دھوکر استری کرکے پہنوں۔“
سعودی زندگی میں غیرملکی ورکروں کی اس قدر بڑی تعداد کام کرتی ہے، اس کا اندازہ منگل کو سعودی شہریوں کو ہوا۔ ان کے لیے گویا زندگی ٹھہر سی گئی۔ یہاں تک کہ مردے بھی اس کریک ڈاؤن سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ جدہ میں مردوں کو نہلانے والے اداروں میں سے 13 کے قریب بند تھیں، اس لیے کہ ان میں کام کرنے والے کارکن نہیں پہنچ سکے تھے۔
غسل میت کے ایک فلاحی ادارے کے ڈائریکٹر محمد فوزے مولاوی نے بتایا کہ وہ لوگ جو مردوں کو نہلاتے تھے، یا ڈرائیور تھے، یا پھر کچھ انتظامی امور سے متعلق کام کرتے تھے، ان میں سے کوئی بھی نہیں آیا ہے، اس کے نتیجے میں کام بالکل بند ہے۔ بہت سے لوگ اپنے عزیزوں کی میتوں کو انہیں غسل دینے کے لیے جدہ سے مکہ لے کر جا رہے ہیں۔
جازان شہر سمیت دیگر شہروں اور قصبوں میں ساٹھ فیصد تجارتی دکانیں، ورکشاپس، پھلوں اور سبزیوں کے اسٹال بند تھے۔
داخلہ و لیبر کی وزارتوں کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ اب تک مکہ، مدینہ، ریاض، طائف، حیل، جازان، قاسم، نجران اور آصر میں بڑے پیمانے پر لوگوں کو گرفتار کیا گیاہے۔
عرب نیوز فرنٹیئر گارڈ کے ذرائع کا حوالے دے کر لکھتا ہے کہ صرف جازان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے آٹھ ہزار سے زیادہ غیرقانونی تارکین وطن کو گرفتار کیا اور سعودی عرب میں غیرقانونی طورپر قیام کرنے والے تین ہزار افراد کو یمن بے دخل کردیا گیا۔
مدینہ پولیس کے سربراہ میجر جنرل سعود بن عود الاحمدی کے مطابق مدینہ میں روڈ سیفٹی اور کرمنل انوسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ کی خصوصی فورسز نے تقریباً سات سو بیس غیرقانونی تارکین وطن کو اپنی حراست میں لے لیا۔
دارالحکومت ریاض میں عینی شاہدین کے بیان کے مطابق ایک اقتصادی طور پر ابھرتا ہوا شہر اولایا میں تجارتی علاقوں میں کارکنوں سے حکام نے ان کے ویزے اور اقامے کے بار میں سوالات کیے۔ البطحا میں بہت سی دکانیں دوسرے دن بھی بند رہیں۔
تعمیراتی صنعت بہت زیادہ متاثر ہوئی، اس لیے کہ گرفتاری کے ڈر سے فیلڈ انجینئر اپنی جاب سائٹ پر واپس نہیں آئے ۔
اس سے پہلے لیبر حکام نے سعودی ایمپلائرز کو بتادیا تھا کہ اگر غیر قانونی طور پر مقیم ورکروں کو ملازمتوں پر برقرار رکھیں گے تو انہیں بھاری جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ یہاں تک کہ ایمپلائرز کو اپنے ملازمین کی ملک بدری کے اخراجات بھی ادا کرنے ہوں گے۔ صرف فری لانس کام کرنے والے غیرقانونی تارکین وطن سے ان کی ملک بدری کے اخراجات وصول کیے جائیں گے۔ لیکن ایسے غیرقانونی تارکین وطن جو اپنے سفری ٹکٹ کی ادائیگی کی استطاعت نہیں رکھتے ہوں گے، ان کی ملک بدری کے اخراجات سعودی حکومت برداشت کرے گی۔
بہت سے سعودی باشندوں نے مہلت کے خاتمے کے بعد غیرملکی ورک فورس کو منظم کرنے کے لیے کے لیے نئے لیبر قوانین کے نفاذ کا خیرمقدم کیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ سعودی شہریوں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ کریک ڈاؤن کی وجہ سے انہیں سخت جھٹکا لگا ہے۔
مثال کے طور پر ابو سعد السعید نے عرب نیوز کو بتایا کہ ان کے نئے گھر کا کام رک گیا ہے، اس لیے کہ بجری اور دیگر تعمیراتی سامان کی قیمتوں میں اچانک اضافہ ہوگیا ہے، یہاں تک کہ قانونی طور پر سعودی عرب میں کام کرنے والے ورکر بھی کام کی سائٹ پر جانے سے گریز کررہے ہیں۔
ابوسعد نے اپنے گھر پر رنگ وروغن کروانے کے لیے ایک پینٹر کو ٹھیکہ دیا، جو قانونی طور پر سعودی عرب میں مقیم ہے، اور اپنے اسپانسرز کی پینٹ شاپ پر کام کرتا ہے، لیکن وہ بھی گرفتاری کے خوف سے کام پر نہیں جارہا ہے، اس لیے کہ اسے اسپانسر کی دکان سے زیادہ کام کی جگہوں پر گرفتاری کا خطرہ ہے۔
گزشتہ تین ماہ میں تقریباً دس لاکھ بنگلہ دیشی، ہندوستانی، نیپالي، پاکستانی، یمنی اور دوسرے ممالک سے آئے تارکین وطن کو سعودی عرب چھوڑ کر جا چکے ہیں۔
انڈونیشیا کے حکام کے مطابق تقریباً چار ہزار انڈونیشین شہری جدہ میں زیرِ حراست میں رکھے گئے ہیں۔ یہ لوگ ایک اپنا سارا سامان لے کر ایک فلائی اور کے نیچے جمع ہو گئے اور خود کو انتظامیہ کے حوالے کر دیا۔
ایک اندازے کے مطابق سعودی عرب میں تقریباً نوّے لاکھ تارکین وطن ورکرز رہتے ہیں. یہ تعداد سعودی عرب میں کی کل آبادی تقریباً دو کروڑ بیاسی لاکھ کے ایک تہائی کے برابر ہے۔
عرب ممالک میں سعودی عرب کی معیشت سب سے بڑی ہے، لیکن سعودی شہریوں میں بے روزگاری کی شرح بارہ فیصد ہے اور انتظامیہ اب اسے کم کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔
سعودی عرب کے ایک وزیر مفرض الحقبانی نے بی بی سی عربی ریڈیو کے پروگرام میں میں بتایا کہ ”لیبر وزارت نے ان کمپنیوں کی شناخت کر لی ہے جو لیبر قوانین کی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔ یہ وہ کمپنیاں ہیں جن کے کارکنوں کے پاس کام کرنے کا پرمٹ نہیں ہے اور وہ بغیر اجازت کے لوگوں کو کام دے رہی ہیں۔ ہم کمپنیوں میں جا کر کارکنان کے دستاویزات کا معائنہ کرتے ہیں۔“
بی بی سی کے مطابق انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے سعودی عرب کے لیبر نظام پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہاں مزدوروں کا استحصال کیا جاتا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق ”سعودی عرب میں نافذ کفالہ نظام کے تحت ورکرز ضمانت دینے والی کمپنی یا کفیل یعنی جو اسے لے کر جاتا ہے، اس کے ساتھ بندھ کر رہ جاتا ہے۔ ورکرز کو ملازمت تبدیل کرنے یا ملک چھوڑ کر جانے کے لیے کفیل کی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس اختیار کا اکثر کفیل غلط استعمال کرتے ہیں اور کارکنان کے پاسپورٹ اور ویزا کو اپنے قبضے میں کرکے انہیں بلیک میل کر لیتے ہیں۔ تارکین وطن سے زبردستی کام کروایا جاتا ہے اور ان کی تنخواہیں بھی روک لی جاتی ہے۔“