سمیع اللہ ملک
نائن الیون کے واقعہ سے مغرب نے جتنافائدہ اٹھایا‘اتناشاید ہی کسی نے اٹھایا۔اس واقعہ کوبنیادبناکرمغرب نے عالم اسلام کوخوب رگیدااورسارے پرانے بدلے لئے۔ نائن الیون کے نقصانات میں سے ایک نقصان یہ بھی ہواکہ مغرب کے ذہن میں یہ گرہ پختہ ہوگئی کہ اسلام اورعیسائیت کے درمیان تصادم ناگزیرہے اور عیسائیت کواس کے لئے ابھی سے تیاری کرنی چاہئے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ نائن الیون کے منصوبہ ساز اورحملہ کرنے والے سارے لوگ مسلمان تھے۔جس سے مغرب کے ذہن میں یہ بات پختہ ہوگئی کہ اسلام ان کی تہذیب وثقافت کے لئے خطرہ ہے۔ اس کانتیجہ یہ نکلا کہ مغربی مفکرین نے دانستہ یانادانستہ اسلام اور اسلامی تہذیب پرحملے شروع کردئیے اور یوں دنیا کے دوبڑے مذاہب کے درمیان خلیج بڑھنے لگی۔ اس صورتحال کاادراک کرتے ہوئے مسلم مفکرین اوررہنماؤں نے قومی وبین الاقوامی سطح پر انتہائی مخلصانہ اورمدبرانہ کوششیں کیں،انہیں اس میں ناکامی کاسامنا کرناپڑاکیونکہ اسلام اورعیسائیت کے درمیان نفرت کی بڑھتی ہوئی خلیج کو پاٹنے کے لئے ان کے پاس کسی تنظیم کاپلیٹ فارم نہ تھا،ناکامی کی وجوہات تلاش کرنا مشکل نہیں ہے تاہم یہ بات یادرکھنا انتہائی ضروری ہے کہ یہ نظریاتی یا نفسیاتی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کے سیاسی اور دفاعی پہلو بھی ہیں۔
امریکہ کی قیادت میں دہشت گردی کے خلاف چلائی جانے والی عالمی جنگ میں صرف مسلمانوں کونشانہ بنایاگیا۔ مسلمان نوجوانوں کوحقائق وشواہد کے بغیرصرف شک کی بنا پر دھرلیا گیا اور انہیں ہرطرح سے تشددکانشانہ بنایاگیا۔ جھوٹے مقدموں اور تشددکے ذریعے اعتراف جیسے واقعات منظرعام پرآنے لگے۔ مسلمان ان واقعات پربھڑکے ہوئے تھے کہ ابوغریب جیل اورگوانٹاناموبے جیسے واقعات منظرعام پرآئے جونفرت کی آگ پرپٹرول ڈالنے کے مترادف تھے۔ ان واقعات نے مسلمان نوجوانوں کے ذہنوں پرگہرے اثرات مرتب کئے اوروہ سوچنے لگے کہ اب انہیں اپناحق بزور بازو لیناپڑے گا۔ڈنمارک اورہالینڈ میں اخباروں اورفلموں کے ذریعے محسن کائنات ﷺ کی توہین اوروہاں کی حکومتوں کی جانب سے اسے آزادیٔ رائے کااظہار قرار دے کر اس کوتحفظ دینے سے بھی مسلم امہ بالخصوص نوجوان نسل مشتعل ہوگئی۔
مسلم نوجوانوں نے اسے اپنے مذہب پرحملہ تصور کرتے ہوئے اس جرم کے مرتکب افراد کے خلاف پرتشدد کارروائیاں شروع کردیں۔ تاہم یہ امرانتہائی افسوس کاباعث ہے کہ جب مسلمانوں نے مقدس شخصیات کی توہین کے خلاف احتجاج کیا اور قانون سازی کامطالبہ کیاتاکہ آئندہ کوئی دریدہ ذہن اس طرح کی جرأت نہ کرسکے تومغرب نے اسے اظہار رائے کی آزادی جیسے بنیادی حق پرحملہ تصور کیا۔گویا مسلمانوں کو نشانہ ظلم بھی بنایاجائے اورانہیں احتجاج کرنے کاحق بھی نہ دیاجائے۔ فلسطین،عراق،کشمیر اور افغانستان میں مسلمانوں پربڑھتے ہوئے مظالم بھی مسلمانوں کے اشتعال کومسلسل ایندھن دیتے رہے۔
مقدس شخصیات کی توہین کوکسی صورت اظہاررائے کی آزادی قرارنہیں دیاجاسکتا۔کسی بھی مذہب کوکسی بھی صورت میں آزادی رائے کی آڑمیں ہدف تنقید نہیں بنایا جاسکتا۔ باقی رہا یہ معاملہ کہ مغرب آزادی رائے پریقین رکھتاہے،ایک پراپیگنڈے سے زائدنہیں۔ یورپ میں کسی شخص کویہ اجازت نہیں کہ وہ ہولوکاسٹ پرگفتگوکرے،اس واقعہ کی صداقت پر کسی قسم کے شک وشبہ کااظہارکرے۔ آسٹریاکے مشہورمصنف ڈیوڈ ارونگ کوصرف اس لئے حوالۂ زنداں کیاگیاکہ ا س نے ہولوکاسٹ پرتنقید کی۔۱۹۹۸ء میں برطانیہ نیشنل پارٹی کے سربراہ نک گرفن کومقدمات کاسامناکرناپڑا کہ اس نے ہولوکاسٹ کاانکارکیا۔کہاں گئی مغرب کی وہ نام نہاداظہار رائے کی آزادی؟ اسلام اورعیسائیت کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو عالمی امن کے لئے خطرہ محسوس کرتے ہوئے مسلم رہنماؤں نے مصالحتی کوششوں کاآغاز کیااور سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ نے پہل کرتے ہوئے اپریل ۲۰۰۸ء میں ایک بین المذاہب کانفرنس کاانعقادکرتے ہوئے خوداس کی میزبانی بھی کی لیکن اس کاکوئی مستقل حل سامنے نہیں آسکا ۔
تاہم یہ بات قابل غورہے کہ مسلم رہنماموجودہ صورتحال پراس طرح معذرت خواہانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں جیسے مسلمان ہی اکیلے اس کے ذمہ دار ہیں۔ اگرچہ عام طورپرشاہ عبداللہ کی ان کوششوں کاخیرمقدم کیاگیاتاہم جس طرح کے عالمی حالات ہیں اور جو امریکی عزائم ہیں،ان کے ہوتے ہوئے یہ ساری کوششیں نقش برآب لگ رہی ہیں۔حال ہی میں سابق امریکی نائب وزیرخارجہ ومشہور دفاعی تجزیہ نگار پال کریگ رابرٹس نے اپنے مضمون میں بہت سے امریکی سکالرز کے نام گنوائے جواسلام کومغربی تہذیب کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں اورامریکہ میں مسلمانوں کے قیام کوسکیورٹی رسک قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح مشہور امریکی تجزیہ نگار روبن رائٹ نے بھی تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ مغرب کاذہن سردجنگ کے بعدآہستہ آہستہ اسلام کو اپنے لئے خطرہ تصور کررہاہے اور ہم ۵۳ممالک میں موجودقریب سواارب مسلمانوں کودنیا کے لئے مستقل خطرہ تصورکرتے ہیں۔ اب غلطی کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ اس وقت ایک چھوٹی سی غلطی بھی ہمارے لئے جان لیواثابت ہوسکتی ہے۔ لہٰذا تمام تروسائل کوبروئے کارلاتے
اس گفتگو سے پال رابرٹس نے یہ نتیجہ اخذ کیاکہ امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف تعصب میں اضافہ ہوتاجارہاہے اورنیوکونز اوریہودی اس نفرت کی فضا کواپنے حق میں استعمال کرتے ہوئے اس سے بھرپورفائدہ اٹھارہے ہیں۔امریکی حکومت کی پالیسی کچھ برداشت اورتحمل پرمبنی ہے لیکن اگر نفرت کایہ طوفان بڑھتاہی گیا توامریکی حکومت کے لئے بھی اس کاسدباب کرنامشکل ہوجائے گا۔
ظاہرہے کہ جب سینئر امریکی عہدیداران اس قسم کے بیانات دیں گے تو مسلمانوں کی کوششیں کیسے ثمرآور ہوسکتی ہیں۔تاہم مغربی معاشرہ انصاف سے بالکل خالی بھی نہیں۔ ہنوز کچھ لوگ ایسے ہیں جوحق اورانصاف کی آواز بلند کررہے ہیں۔ ایک امریکی تجزیہ نگار جان ایل ایسپوسٹو نے حقائق بیان کرتے ہوئے کہا کہ مغرب اور امریکہ سے مسلمانوں کو ناراضگی کی وجوہات مذہبی سے زیادہ سیاسی ہیں۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے حالیہ اجلاس میں جب ہیومن رائٹس کونسل نے ایک قرارداد کے ذریعے ان لوگوں کی مذمت کرنے کی کوشش کی جومقدس شخصیات کونشانہ تنقید بنارہے ہیں تویورپی ممالک نے آزادیٔ اظہار رائے پرحملہ قرار دیتے ہوئے اس قرارداد کی شدیدمذمت کی۔ اس سے اقوام متحدہ کی جانب سے دونوں مذاہب کے درمیان مفاہمتی کوششوں کی سخت حوصلہ شکنی ہوئی اور تمام کوششوں پرپانی پھرگیا۔ جس کامطلب یہ ہواکہ ابھی ہم نے ایسی دنیا میں رہناہے جومذہبی منافرتوںاورتعصب سے بھرپور ہے اوریہ فضا ایک طویل عرصے تک ہم پرمسلط رہے گی۔
ہوئے ہمیں اس سمت میں بھر پور توجہ کرنی چاہئے۔