دنیا میں نہ جانے کتنی درسگاہ ہیں اور مکاتب پائے جاتے ہیں لیکن کربلا کائنات کی ایسی واحد درسگاہ ہے جو تایخ انسانیت میں سب سے منفرد ہے۔ اس لئے کہ ایک ایسی درسگاہ ہے جہاں دروس پڑھنے والوں کے لئے سن و سال کی قید نہیں ، زمان و مکان کی قید نہیں رنگ و نسل کی قید نہیں ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والا انسان درسگاہ کربلا میں آکر درس حاصل کر سکتا ہے۔ ہر قبیلہ اور قوم کا انسان یہاں سے استفادہ کر سکتا ہے۔
یہاں انسانیت کوار تقاء ملتی ہے یہاں انسانیت کی قدروں کو پہچانا جاتے ہے یہاں حق و باطل میں تمیز کرنے کا سلیقہ پیدا ہوتا ہے۔ ایک ایسی درسگاہ جہاں چھ ماہ کا ننھا مجاہد مسند درس پر بیٹھ کر درس شجاعت دیتا ہے تو پچاسی سالہ بوڑھا بھی اپنی کمر ہمت باندھ کر حوصلہ کا پیغام دیتا نظر آتا ہے ۔ آخر یہ کر بلا کیا ہے ؟ جب بھی کوئی حادثہ کربلا کی تحلیل کرتا ہے تو اس کے دماغ کی رگیں پھٹنے لگتی ہیں ہر ہر لمحہ اس کے لئے ماجوق ادراک اور ہر ہر مقام شگفت انگیز ، جہاں عقل خاموش، بس نظارہ گر ہے اور عشق عقل کو دریائے تحیّر میں غوطہ ور چھوڑ کر آواز دیتا ہے یہ وادی عشق ہے یہاں جو کچھ بھی ہو تا ہے وہ نتیجئہ عشق ہے یہاں سے درس تو ہر ایک کو مل سکتا ہے لیکن جو ہر درس تک بس وہی پہونچ سکتا ہے جو عاشق ہو، یہاں کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟ اور کیونکر ہوا؟ اس کی حقیقی کیفیت کو وہی جان سکتا ہے جس نے عشق کے واقعی مفہوم کو سمجھا ہے، وادئی نینوا سے آج بھی آواز آ رہی ہے خبر دار ! یہاں اپنی عقل کا ہاتھ پکڑ کر چلنے کی کوشش نہ کرنا یہاں عقل کے ساتھ چلوگے تو جل کر خاک ہو جاؤ گے اس لئے نہیں کہ یہاں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سراسر خلاف عقل ہے۔ بلکہ اس لئے کہ تمہاری عقل ان کیفیات کو درک کرنے سے عاجز ہے کہ جس کا سرچشمہ عقل اول ہے۔ یاں تو بس ایک ہی آواز ہے ‘ رضاً بقضائہ و تسلیماً لا مرہ‘‘ کون سی عقل ہے جو یہ بتا سکے کہ کربلا میں جو کچھ ہو ا وہ کسی منطق کے تحت انجام پایا۔ سوائے اس کے کہ کربلا میں ہونے والے ہر حادثہ کو نگاہ عشق سے دیکھا جائے جہاں شہداء کے کٹے ہو ئے لاشے اپنے آقا کی صدا ’’ہم من ناصر‘‘ سن کر تڑپ تڑپ کر آواز دے رہے ہیں اگرموت نے ہمیں مجبور نہ کیا ہوتا تو ایک بار پھر امتحان عشق دیتے۔ لیکن کیا کریںکہ ہمیں ۔۔۔۔۔۔کون سی عقل ہے جو اس سرچشمہ قداکاری کی تھاہ کو پا سکے۔
انسانی عقل و شعور گھٹ گھٹ کر مر جائیں لیکن اف سانسوں کی گرمی کو درک نہیں کر سکتے جو ان کٹے ہوئے بے سر لاشوں سے نکل کر کربلا کی تاریک فضا میں تحلیل ہو رہی ہے۔
آخر یہ سب کیا ہے ؟
یہی وہ جگہ ہے جہاں عقل کو حیران و پریشان دیکھ کر عشق آواز دیتا ہے یہ کربلا ہے سچ ہے یہ کربلا کا سبق ہے جو اس منزل پر ہمیں بتاتا ہے کہ اطاعت ولی امر کیا ہے۔ فکر انسانی کے پرندے کربلا میں ہونے والی قربانیوں کی منزل ارتقاء تک پہونچنابھی چاہیں تو جھنجھلا جائیں اور اپنی چونچوں سے اپنے ہی بال و پر نوچ کر اپنی عاجزی کا اعلان کرتے ہوئے آوازدیں ہمارے اندر اتنی طاقت نہیں کہ ہم منزل حقیقت تک پہونچ سکیں۔
اور یہیں سے کربلا آواز دیتی نظر آتی ہے آؤ اب جب کہ تمہیں اپنی ناتوانی کا احساس ہو گیا تو آؤ مسلم ابن عوسجہ کہ سامنے زانوئے ادب تہ کر واگر تمہیں موت سے ڈر لگتاہے اور تم موت کے قصورسے کانپ اٹھتے ہوتو آؤ اس تیرہ سالہ کمسن بچے کے پاس آؤ جس کی شیریں آواز آج صدیوں بعد بھی ہوا کے دوش پر جاکر یہ پیغام دے رہی ہے ‘‘الموت احلیٰ من العسل۔۔۔۔۔‘‘ اگر تمہیں بندگی کا طریقہ نہیں آتاتو اس سیاہ فام جو ان کو دیکھو جس کے خون کی چمک کے سامنے یہ زوق برق کائنات ایک ٹمٹماتے ہوئے دیئے کے سوا کچھ بھی ہے نہیں ، دیکھو تو صحیح بندگی اس کو کہتے ہیں ! عقیدت رکھنے والے تو بہت مل جاتے ہیں لیکن عقیدت کو لباس بندگی پہنا کر راہ عقیدت میں ایثار کی شمعیں روشن کرنے والے اپنے خون سے وضو کر کے نماز عشق پڑھنے والے جون صرف کربلا میں ہی ملتے ہیں۔
اگر تم دوستی اور فاقت کی قدر وں کو جاننا چاہتے ہو تو آؤ دیکھو یہ شہسوار جو گردوخاک میں اٹا آرہا ہے جس کا سارا جسم پسینے سے شرابور ہ ا سکے پاس آؤ اور آ کر پوچھو تو سہی اس دشت و بیابان میں اپنا گھر بارکیو آ رہا ہے وہ کون سی قیمتی شے ہے جو اس کو اس خوفناک جنگل میں لے آئی جہاں موت کا اژدھامنہ پھاڑے ہر شئے کو نگل جانے کے در پے ہے۔
اگر ابھی تک تم دوستی کے واقعی مفہو م سے ناآشنا ہو تو اس حبیب سے پو چھو کی ذات خود اس کے نام کے لئے مسمیٰ ہے۔
اگرراہ حق پر چلتے ہوئے تمہارے اندر تزلزل پیدا ہو رہا ہے تمہارے پایہ أستقامت میں لرزش ہے ، تمہارے حوصلے راہ خدا میں کچھ کر نے سے ناتوان ہو چکے ہیں تمہارے ارادوں کے آگے یاس ونا امیدی کے بادل کوہ قنوطیت بن کر کھڑے ہو گئے ہیں تو آؤ یہ مسلم بن عوسجہ ہیں جن کے ہاتھو ں میں رعشہ ضرور ہے جن کی آوازلرزاں ضرور ہے لیکن دیکھو تو سہی یہ کو ن ساارادہ ہے جو اس ضعیفی میں بھی آواز دے رہا ہے آقا! اگر آپ کو چھوڑ کر چلے گئے تو رسول خدا کو کیا منہ دکھا ئیں گے ؟ !! یہ تاریخی جملہ دیکھ کر ہر انسان کا وجدان پکار اٹھتا ہے نہیں نہیں ہر گز یہ آواز کسی ناتواں انسان کی نہیں ہر گز یہ آوازکسی ضعیف العمر کی نہیں ہو سکتی لیکن جب تاریخ مسلم بن عوسجہ کا سن بتاتی ہے تو بس پھر ایک ہی راہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ تسلیم کیا جائے کہ ظاہری قوا کا تحلیل ہو جانا انسان کے حقیقی وجو د کو نہیں مٹا سکتا۔ یہ و ہ جوانی ہے جو صرف کربلا میں نظر آتی ہے۔
اگر تمہارے سینوں میں اتنی طاقت نہیں کہ تم دشمنان اسلام کے نشتروں کو برداشت کر سکو اور تم اس خوف سے کہ لوگ کیا کہیں گے اسلامی احکام کو بے وقعت سمجھتے ہو تو آؤ سعید و زہیر کے ان حوصلوں کو دیکھو اور ان کے فولادی سینوں کو دیکھو جو نماز کی خاطر چھلنی چھلنی ہو گئے اپنے وجود کو مٹا دیا صرف حکم الٰہی کی خاطر صرف اس بات کے لئے کہ ان کا مولا سکون کے ساتھ آخری نماز ادا کر لے۔
اگر تمہیں گناہ کرنے کے بعد پشمانی ہے اور تم اس کا اظہار اپنے مولا کے سامنے نہیں کر سکتے اور تمہارے اندر اتنی ہمت نہیں کہ اپنے مولا کے حضور میں اظہار ندامت کر سکو تو آؤ خر ’’کے پاس آؤ‘‘ حرـکو دیکھو!حر کے بندھے ہوئے ہاتھوں کو دیکھو تمہارا آقا کریم ابن کریم ہے تم آؤ تو سہی پہلے حر تو بنو فرط حیرت سے تمہارا منہ یہ دیکھ کر کھلا
رہ جائے گا کہ جس کے زانو پر تمہارا سر ہے وہ اور کوئی نہیں تمہاری آقا ہے ۔۔۔۔۔
آؤ یہاں آؤ ، یہاں تمہیں استقلال ملے گا یہاں تمہیں آزادی نصیب ہو گی یہاں تمہیں غلامی کی آہنی زنجیروں سے نجات ملے گی یہاں طاغوتی طاقتوں سے لڑنے کا حوصلہ ملے گا تم صرف ایک بار کربلا بصیرت نگاہوں سے دیکھو تو سہی ، پھر تمہاری آنکھیں وہی رہیں گی لیکن مناظر تبدیل ہو جائیں گے۔
تمہاری مشکلیں حل ہوجائیں گی صعوبتیں آسان ہو جائیں گی۔تمہارے سامنے جو بھی ہو تمہارے لبوں سے بے ساختہ یہی کلمات نکلیں گے ’’رضاً بقضائہ و تسلیماً لا مرہ ‘‘۔ اگر کوئی تمہارے مصائب کے بارے میں سوال کرے گا تو خود بخود یہی الفاظ تمہارے ذہن سے نکلیں گے ’’مارأیت الّا جمیلا‘‘۔
یہی کربلا ہے اور یہی اس کے وہ آفاقی دروس ہیں جو تمام تلخیوں کو آب حیات اور دنیا کی ہر تلخی کو شیریں بنا کر پیش کر رہے ہیں ، اب نہ کوئی درد ہے نہ بے چینی نہ کوئی الجھن ہے نہ گھٹن زندگی کے تمام مسائل حل شدہ ہیں ہر چیز لطف پروردگاہ ہے اور یہ اثر ہے کربلا کا جو خود تو کرب و بلا ہے لیکن اس سے ملنے والے دروس ہمیں ایک ایسی درسگاہ کا پتہ دیتے ہیں جہاں حلاوت ہے زندگی کی شیرینی ہے زندگی کے معنی ہیں زندگی کا احساس ہے عشق ہے محبت ہے ایثار ہے فداکاری ہے۔
اور یہیں سے کربلا آواز دیتی نظر آتی ہے آؤ اب جب کہ تمہیں اپنی ناتوانی کا احساس ہو گیا تو آؤ مسلم ابن عوسجہ کہ سامنے زانوئے ادب تہ کر واگر تمہیں موت سے ڈر لگتاہے اور تم موت کے قصورسے کانپ اٹھتے ہوتو آؤ اس تیرہ سالہ کمسن بچے کے پاس آؤ جس کی شیریں آواز آج صدیوں بعد بھی ہوا کے دوش پر جاکر یہ پیغام دے رہی ہے ‘‘الموت احلیٰ من العسل۔۔۔۔۔‘‘ اگر تمہیں بندگی کا طریقہ نہیں آتاتو اس سیاہ فام جو ان کو دیکھو جس کے خون کی چمک کے سامنے یہ زوق برق کائنات ایک ٹمٹماتے ہوئے دیئے کے سوا کچھ بھی ہے نہیں ، دیکھو تو صحیح بندگی اس کو کہتے ہیں ! عقیدت رکھنے والے تو بہت مل جاتے ہیں لیکن عقیدت کو لباس بندگی پہنا کر راہ عقیدت میں ایثار کی شمعیں روشن کرنے والے اپنے خون سے وضو کر کے نماز عشق پڑھنے والے جون صرف کربلا میں ہی ملتے ہیں۔
اگر تم دوستی اور فاقت کی قدر وں کو جاننا چاہتے ہو تو آؤ دیکھو یہ شہسوار جو گردوخاک میں اٹا آرہا ہے جس کا سارا جسم پسینے سے شرابور ہ ا سکے پاس آؤ اور آ کر پوچھو تو سہی اس دشت و بیابان میں اپنا گھر بارکیو آ رہا ہے وہ کون سی قیمتی شے ہے جو اس کو اس خوفناک جنگل میں لے آئی جہاں موت کا اژدھامنہ پھاڑے ہر شئے کو نگل جانے کے در پے ہے۔
اگر ابھی تک تم دوستی کے واقعی مفہو م سے ناآشنا ہو تو اس حبیب سے پو چھو کی ذات خود اس کے نام کے لئے مسمیٰ ہے۔
اگرراہ حق پر چلتے ہوئے تمہارے اندر تزلزل پیدا ہو رہا ہے تمہارے پایہ أستقامت میں لرزش ہے ، تمہارے حوصلے راہ خدا میں کچھ کر نے سے ناتوان ہو چکے ہیں تمہارے ارادوں کے آگے یاس ونا امیدی کے بادل کوہ قنوطیت بن کر کھڑے ہو گئے ہیں تو آؤ یہ مسلم بن عوسجہ ہیں جن کے ہاتھو ں میں رعشہ ضرور ہے جن کی آوازلرزاں ضرور ہے لیکن دیکھو تو سہی یہ کو ن ساارادہ ہے جو اس ضعیفی میں بھی آواز دے رہا ہے آقا! اگر آپ کو چھوڑ کر چلے گئے تو رسول خدا کو کیا منہ دکھا ئیں گے ؟ !! یہ تاریخی جملہ دیکھ کر ہر انسان کا وجدان پکار اٹھتا ہے نہیں نہیں ہر گز یہ آواز کسی ناتواں انسان کی نہیں ہر گز یہ آوازکسی ضعیف العمر کی نہیں ہو سکتی لیکن جب تاریخ مسلم بن عوسجہ کا سن بتاتی ہے تو بس پھر ایک ہی راہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ تسلیم کیا جائے کہ ظاہری قوا کا تحلیل ہو جانا انسان کے حقیقی وجو د کو نہیں مٹا سکتا۔ یہ و ہ جوانی ہے جو صرف کربلا میں نظر آتی ہے۔
اگر تمہارے سینوں میں اتنی طاقت نہیں کہ تم دشمنان اسلام کے نشتروں کو برداشت کر سکو اور تم اس خوف سے کہ لوگ کیا کہیں گے اسلامی احکام کو بے وقعت سمجھتے ہو تو آؤ سعید و زہیر کے ان حوصلوں کو دیکھو اور ان کے فولادی سینوں کو دیکھو جو نماز کی خاطر چھلنی چھلنی ہو گئے اپنے وجود کو مٹا دیا صرف حکم الٰہی کی خاطر صرف اس بات کے لئے کہ ان کا مولا سکون کے ساتھ آخری نماز ادا کر لے۔
اگر تمہیں گناہ کرنے کے بعد پشمانی ہے اور تم اس کا اظہار اپنے مولا کے سامنے نہیں کر سکتے اور تمہارے اندر اتنی ہمت نہیں کہ اپنے مولا کے حضور میں اظہار ندامت کر سکو تو آؤ خر ’’کے پاس آؤ‘‘ حرـکو دیکھو!حر کے بندھے ہوئے ہاتھوں کو دیکھو تمہارا آقا کریم ابن کریم ہے تم آؤ تو سہی پہلے حر تو بنو فرط حیرت سے تمہارا منہ یہ دیکھ کر کھلا
رہ جائے گا کہ جس کے زانو پر تمہارا سر ہے وہ اور کوئی نہیں تمہاری آقا ہے ۔۔۔۔۔
آؤ یہاں آؤ ، یہاں تمہیں استقلال ملے گا یہاں تمہیں آزادی نصیب ہو گی یہاں تمہیں غلامی کی آہنی زنجیروں سے نجات ملے گی یہاں طاغوتی طاقتوں سے لڑنے کا حوصلہ ملے گا تم صرف ایک بار کربلا بصیرت نگاہوں سے دیکھو تو سہی ، پھر تمہاری آنکھیں وہی رہیں گی لیکن مناظر تبدیل ہو جائیں گے۔
تمہاری مشکلیں حل ہوجائیں گی صعوبتیں آسان ہو جائیں گی۔تمہارے سامنے جو بھی ہو تمہارے لبوں سے بے ساختہ یہی کلمات نکلیں گے ’’رضاً بقضائہ و تسلیماً لا مرہ ‘‘۔ اگر کوئی تمہارے مصائب کے بارے میں سوال کرے گا تو خود بخود یہی الفاظ تمہارے ذہن سے نکلیں گے ’’مارأیت الّا جمیلا‘‘۔
یہی کربلا ہے اور یہی اس کے وہ آفاقی دروس ہیں جو تمام تلخیوں کو آب حیات اور دنیا کی ہر تلخی کو شیریں بنا کر پیش کر رہے ہیں ، اب نہ کوئی درد ہے نہ بے چینی نہ کوئی الجھن ہے نہ گھٹن زندگی کے تمام مسائل حل شدہ ہیں ہر چیز لطف پروردگاہ ہے اور یہ اثر ہے کربلا کا جو خود تو کرب و بلا ہے لیکن اس سے ملنے والے دروس ہمیں ایک ایسی درسگاہ کا پتہ دیتے ہیں جہاں حلاوت ہے زندگی کی شیرینی ہے زندگی کے معنی ہیں زندگی کا احساس ہے عشق ہے محبت ہے ایثار ہے فداکاری ہے۔
اور کیوں نہ ہو یہ ساری چیزیں مضمر ہیں عبودیت کے اندر ہر چیز کا راز بندگی ہے اور کربلا کا ہر درد ہمیں بندگی دے رہا ہے۔