(گزشتہ سے پیوستہ۔2)
٭عالم نقوی
جب کوئی دور،زوال سے گزر رہا ہو اور جب ابتلاو آزمائش کا زمانہ ہوتو محض سمیناروں، جلسوں اور اخباری بیانوں اور ریزولیوشنوں اور میمورنڈموں سے کچھ نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ یہ سبھی فورم اور پلیٹ فارم عمومی ہوتے ہیں اور عمومی فورموں میں کالی بھیڑوں کی شمولیت اور مُفسیدین و ظالمین کے نمائندوں کو روکنے کا کوئی مؤثر میکانزم ابھی تک معرضِ وجود میں نہیں آسکا ہے۔ اس لیے اتحاد و امن کے قیام کے لیے جو کرنے کے کام ہیں اُن کا اعلان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ نتیجہ خیز کام وہی ہوتے ہیں جو شور مچائے بغیر بے غرضی بے لوثی قربانی اور ایثار کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔ قربانی وقت کی بھی اور مال کی بھی۔ اور وہ بھی سے دور اور خالص لِلّٰہیت کے ساتھ۔ اسی لیے لکھنؤ کے امن پسند اور معاملہ فہم ذمہ دار شہریوں پر مشتمل لکھنؤ امن کمیٹی کے گزشتہ جلسے نے جو28اکتوبر کو لکھنؤ میں ہوا تھا،یہ محسوس کیا کہ شہر میں ہر قیمت پر امن و امان ہم آہنگی اور بھائی چارے کی فضا برقرار رہنی چاہیے۔
مسلمانوں کا باہمی اتحاد عمومی قیام امن کے لیے ضروری ہے اور قرآن و سنت کے اعتبار سے بھی مسلمانوں کے لیے ہر طرح کے فتنہ وفساد سے پرہیز لازمی ہے۔
لکھنؤ کے ذمہ دار شہریوں کے مذکورہ جلسے نے یہ بھی تجویز کیا کہ لاوڈ اسپیکر کا استعمال، کولکاتہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آف انڈیا نئی دہلی کے ہدایات اور احکام کے تحت، محدود کیا جائے۔ صرف ’باکس‘ کا استعمال ہو اور ماحولیاتی تحفظ اور شور کی آلودگی کے اعتبار سے جتنے کی اجازت ہے، آوازاُسی حد تک محدود رکھی جائے۔ لاوڈاسپیکر کے استعمال میں اوقات کی پابندی بھی کولکاتہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آف انڈیا کے احکام کے مطابق ہو۔
امن پسند شہریوں کا اس پر بھی اتفاق تھا کہ ہر فرقے کے اجتماع عام میں ہونے والی تمام تقاریر کوریکارڈ کیا جائے اور اگر اُن میں کسی فرقے کے خلاف اشتعال انگیزی ہو تو اس کے خلاف باضابطہ قانونی کاروائی کی جائے۔ مذکورہ قرار داد میں تمام علماء،خطبا ،واعظین سے درخواست کی گئی کہ وہ ازخود اُن تمام باتوں کا لحاظ رکھیں جن کی پابندی دینی اسپرٹ اور قانونِ ہند دونوںکے تحت ضروری ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم سب اپنے ملکی قانون اور اسلامی شریعت کے ’’آدابِ عبادات‘‘ کی ازخود سختی سے پابندی کریں اور اس طرح خود کو خواہ مخواہ کی پریشانیوں سے محفوظ رکھیں۔شہریوں نے محسوس کیا کہ مقامی انتظامیہ کو بھی چاہیے کہ جو لوگ بھی اپنے اپنے مذہبی تقریبات کی انجام دہی کے دوران قانون شکنی کے مرتکب ہوں یا مقررہ عدالتی پابندیوں کا لحاظ نہ کریں ان کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی کریں۔
سوشل میڈیا اور موبائل فون کا استعمال بھی کا متقاضی ہے کیونکہ مظفر نگر ،میرٹھ ،سہارنپور اور دیگر حسّاس شہروں میں افواہیں پھیلانے اور اشتعال انگیز تقاریر کے آڈیو؍ویڈیو عام کرنے کے لیے انٹرنٹ اور موبائل فون کا استعمال ہورہا ہے۔ اس صورت حال کا مقابلہ صرف انتظامیہ تنہا نہیں کر سکتی۔ یہ ہماری آپ کی تمام حساس اور ذمہ دار شہریوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے آپ پر اور اپنے نوجوانوں پر قابو رکھیں۔ یہ کام اللہ کے خوف کے بغیر ممکن نہیں۔
عوام کی اکثریت امن و سکون سے رہنا چاہتی ہے اور ہرگز فساد نہیں چاہتی۔ علماء واعظین کی اکثریت بھی مُفسد نہیں۔ یہ صرف علماے سُوٗہیں جو دنیا کے لیے دین کا کاروبار کرتے ہیں۔ علماے حق کی خاموشی کی وجہ سے اُنہیں کُھل کھیلنے اور من مانی کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اگر علماے حق خاموش نہ رہیں اور فساد فی الارض کے خلاف کھل کے شرعی ودینی موقف اختیار کریں تو نہ صرف علماے سُوٗکی ہمتیں پست ہوں گی بلکہ عوام کو بھی فسادیوں کے خلاف زبان کھولنے کا حوصلہ ملے گا اور وہ ڈر کر خاموش بیٹھنے کے بجائے کھل کر ان کے خلاف بولیں گے اور اِس طرح مُفسیدین اَز خود اپنے گھناؤنے منصوبوںمیں ناکام ہوجائیں گے۔ وہ علماے سُوٗ جو اپنی غیر شرعی آتش بیانی، دروغ گوئی اور افترا پردازی سے نوجوانوں کے دلوں میںدوسرے دینی یاوطنی بھائیوں کے خلاف نفرت کا زہر بھرتے ہیں انہیں قبر اور قیامت کا خوف نہیں۔ نوجوانوں کا قصور تو بس اتنا ہے کہ وہ خود اپنی عقل عمومی کا استعمال نہیں کرتے۔ یہ بے چارے نوجوان جو فساد میں قتل و خون وغارت گری میںملّوث ہوتے ہیں، فی الواقع وہی سب کرتے ہیں جوان کے عاقبت نا اَندیش اور خدا سے نہ ڈرنے والے لیڈر انہیں بتاتے اور سکھاتے ہیں۔
جب ہم اپنے نوجوانوں کو’آداب عبادات‘ اور ’آدابِ اختلاف ‘سکھائیں گے ہی نہیں تواُنھیں کیسے معلوم ہوگا کہ اسلام تو واجب عبادت کے ذریعے بھی کسی کو ایذا پہنچانے سے منع کرتا ہے۔ ہم کو عام راستہ بند کرنے کا اختیار نہیںہم کواپنی بلند خوانی کے ذریعے(جو لاوڈاسپیکر کے ذریعے بلند ترین کی حد سے بھی گزر جاتی ہے) کسی کو تکلیف دینے کا حق نہیں، اور جاہلوں سے اعراض اور خطا کار انسانوں کو معاف کردینا تو قرآن کریم کے عمومی احکامات میں شامل ہیں۔ موعظہ بھی حسنہ ہونا چاہیے، سخت اور دُرُشت نہیں ۔ جو نصیحت دوسروں کو اذیت پہنچانے چڑھانے کا سبب بن جائے وہ ’امرونہی‘ کے حکم میں شامل نہیں۔ قرآن تو اسی لیے دوسروں کے باطل خداؤں تک کو علانیہ برا بھلا کہنے سے منع کرتا ہے کہ مبادا وہ پلٹ کر تمہارے اللہ ورسولؐ کو کچھ کہہ بیٹھے۔
اس کے علاوہ ایک اور بدیہی حقیقت ہماری آنکھوں سے اوجھل رہتی ہے کہ صرف ظلم کرنا ہی ظلم نہیں، ظلم پر خاموش رہنا اور اس کے خلاف آواز نہ اٹھانا اور ظالم کو روکنے کی کوشش نہ کرنا بھی ظلم ہے۔
حالات کی ان تمام سنگینیوں کے باوجود ہم مایوس نہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت امن ہی چاہتی ہے اور بلاشبہ اس خواہش کا ایک سبب اقتصادی بھی ہے۔ فساد کوئی سا بھی ہو، دوکانوں وغیرہ کے لوٹے جانے اور کرفیو لگنے کی وجہ سے اصل نقصان تو غریبوں ہی کا ہوتا ہے۔نچلا متوسط طبقہ اور نچلا طبقہ ہر طرح کے فساد کی مار جھیلتا ہے اس میں مظفر نگر اور لکھنؤ ،احمد آباد اور ممبئی کا کوئی اِستِثنا ء نہیں۔ فساد کا مطلب غریبوں ہی کے پیٹ پر لات مارنا اور ان کے منھ سے نوالہ چھیننا ہوتا ہے۔
وہ لوگ جو نفرت انگیز تقریریں کرتے ہیں، نفرت کا زہر گھولتے ہیں وہ تو سب اپنے اپنے عافیت کدوں میں محفوظ رہتے ہیں۔ پولس کبھی انہیں گرفتار بھی کرتی ہے تو اُن کے ساتھلوک ہوتا ہے مسلمانوں اور تمام کمزور وغریب اہالیان وطن کی اکثریت اس حقیقت سے خوب واقف ہے۔ جس طرح دنیا کے تمام یہودی عیسائی اور مشرکین مل کر بھی دنیا کے تمام مسلمانوں کو سمندر میں نہیں پھینک سکتے اُسی طرح دنیا کی کوئی بھی اکثریت اپنی اقلیت کو دریا برد نہیں کرسکتی۔
بوسینا، عراق، افغانستان، چیچنیااور فلسطین کا سبق یہی ہے کہ بحرین، عراق،پاکستان، بلوچستان، سعودی عرب اور شام میں اکثریت یا طاقت ور حکمراں اپنی اقلیت کو نیست و نابود نہیں کر سکتے۔ یہ اللہ کی سنّت کے خلاف ہے۔ اللہ نے کسی قوم کو باقی رکھنے یا فنا کردینے کا کام اپنے ہاتھوں میں رکھا ہے، ابلیس اور اس کے پیروکار انسانوں کا ٹولہ یہ کام ہرگز ہرگز نہیں کر سکتا۔ صرف یہی حقیقت اگر ہماری سمجھ میں آجائے تو ہم ہر طرح کے فساد سے بڑی حد تک محفوظ رہ سکتے ہیں۔
میں فائدہ ابلیس اور اس کے کارندوں کے سِوا کسی کا نہیں اورنقصان سب کا ہے۔
قرآن بہر حال اس امت کو امت واحدہ دیکھنا چاہتا ہے ۔ہمیں اپنے اپنے مسلک، مذہب اور مشرب کے ساتھ ساتھ دوسرے کے مسلک ،مذہب اور مشرب کا احترام کرتے ہوئے، اُس اختلاف کے ساتھ، جو آج نہیں صدیوں پرانا ہے، زندہ رہنے کا ہنر سیکھنا ہی ہوگا کونکہ دنیا میں کوئی گروہ انسانی کسی دوسرے گروہ انسانی کو کلّی طورپر اُس وقت تک ختم نہیں کرسکتا جب تک کہ خود اللہ بھی اُس گروہ کے کلّی خاتمے کی اجازت نہ دیدے۔ اور اللہ اگر یہ اجازت قیامت کے قریب دے گاتو اپنے کسی نمائندۂ برحق کو دے گا، ہماشما کو نہیں۔
یہ بہرحال رحمتٌ للعالمین کی نبوت کا زمانہ ہے اب تو بس قیامت ہی باقی ہے۔ جس میں کوئی شک نہیں اور اُس روز ۔۔۔۔یعنی قیامت کے دن سب کو معلوم ہو جائے گا کہ کون حق پر تھا اور کون نہیں۔ آج ہم چاہیں بھی اور ہمارے پاس طاقت بھی ہو تو ہم اپنے مخالف مسلک و مذہب والوں کو اس دنیا سے نابود نہیں کرسکتے۔یہ فساد فی الارض ہے۔ اور ہر مفسد اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنارہا ہے۔
مسلمان اس وقت پوری دنیا جس طرح کے سنگین بحرانی حالات کا شکار ہیں اس کا اولین اور مستحکم اور منھ توڑ جواب یہی ہے کہ وہ متحد ہوجائیں، امت واحدہ بن جائیں اور اعلان کردیں کہ وہ اوّل مسلمان ہیں اور اُن کی سبھی دوسری شناختیں ثانوی ہیں۔ مسلمانوں کے لیے لازم ہے کہ وہ یہ اعلان کردیں کہ اب وہ اپنے مسلکی فقہی قبائلی اور نسلی ہر طرح کے اختلاف کو اُس دن تک کے لیے مُؤخّر کرتے ہیں جس دن ہمارا خالق و مالک وپروردگار ان تمام باتوں کو واشگاف کردے گا جن میں ہم اپنی دُنیوی زندگی میں اختلاف کیا کرتے تھے۔
اِس وقت شیعہ ، سنی بریلوی ،دیوبندی مُقَلِّد غیر مُقلِّد ،اصولی اور اخباری کی جو لڑائی مسلم دنیا میں جاری ہے اُسے بہر قیمت ختم ہونا چاہیے۔ ورنہ مسلمان بدترین تباہی کے لیے تیار رہیں۔ وہ تباہی جو(خدانخواستہ) بوسنیا، عراق اور افغانستان و شام وچیچنیا سے بڑی تباہی ہوگی۔(اللھم احفظنا)
لہٰذا اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ سب شیعہ اور سنی، مسلم اور غیر مسلم مل جل کر جینا سیکھ لیں۔ تمام اختلافات کے ساتھ زندہ رہنے اور امن و امان سے رہنے کی عادت ڈال لیں کہ فساد