از: وسیم احمد رضوی، نوری مشن مالیگاؤں
عشق و عرفان کی سرزمین ناسک کا دینِ اسلام سے قدیم رشتہ اور اشاعتِ اسلام کے حوالے سے مضبوط اور تاریخی پس منظر ہے۔ اس سر زمین سے داعیانِ دین اور مسلم مصلحین نے ہر دور میںگلشنِ اسلام کی آبیاری کے لیے اپنی خدمات پیش کیں،قدیم دور میں ناسک کو شاید اسی لیے ’’گلشن آباد‘‘ کہا جاتا تھا…ناسک میں آج بھی داعیانِ دین اور مخلص مبلغینِ اسلام کی کمی نہیں،یہاں کی خاک سے ہر دور میں اصلاحی و علمی ، تعلیمی و دعوتی تحریکیں اُٹھیں اور اپنے اثرات پورے ہندستان پر نقش کرگئیں۔اس سلسلے میں شہنشاہِ ناسک حضرت سید صادق شاہ حسینی قادری چشتی مدنی علیہ الرحمہ کے علمی و روحانی خانوادہ کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ اسی طرح ماضی قریب میںخلفاے حضور مفتی اعظم ہند مفتیِ نانپارہ حضرت مفتی رجب علی رضوی اور فخرِ خاندیش مفتی عبدالغنی رضوی نصیرآبادی علیہما الرحمہ نے تحفظ و فروغِ اہلِ سنت کے لیے جو بے مثال کارنامے انجام دیے ہیںاس کے اثرات آج تک اہلیانِ ناسک کے ذہن و دل پر نقش ہیں۔
۲۰؍ اکتوبر بروز اتوار سہ پہر ساڑھے تین بجے اسی ناسک کے احبابِ اہلِ سنت کی دعوت پر نوری مشن مالیگاؤں کا ایک وفد ناسک کے لیے روانہ ہوا۔جس میں راقم کے علاوہ غلام مصطفی رضوی، محمد جاوید رضوی، عتیق الرحمن رضوی، محمدجنید رضوی، محمد سعید رضا اور عتیق احمد مالیگ شامل تھے۔مکمل دوگھنٹے بعد ساڑھے پانچ بجے وفد ناسک پہنچا۔ دُوَارْکاسرکل پہ پہنچ کر میزبان محمد صوفی رضاسے رابطہ کیا اور ان کی رہنمائی میں ہماری گاڑی شہنشاہِ ناسک کے دربار کی جانب روانہ ہوگئی۔پیچ و خم اور نشیب و فراز والے راستے عبور کرکے ہم شہنشاہِ ناسک کے آستانے پر پہنچ گئے۔عصر کی جماعت ختم ہوچکی تھی اوربڑے سنجیدہ اور سُلجھے ہوئے انداز میں دینی تعلیم کا درس جاری تھا۔ ہم نے فوراً تازہ وضو کیااور نمازِ عصر ادا کی۔نماز سے فراغت کے بعد درگاہ شریف پر حاضری دی، پھولوں کی چادر پیش کی،فاتحہ خوانی ہوئی، عرض و معروض اور دعا کے بعد درگاہ شریف سے باہر آگئے۔جب ہم درگاہ شریف میں داخل ہوئے تھے تو بالخصوص اہلیانِ ناسک اوربالعموم اہلِ سنت کے خلاف بد دیانتوں کے باطل پروپیگنڈوں کے جال یکے بعد دیگرے تارِ عنکبوت کی طرح بکھرنے لگے،الزامات کی قلعی کُھلنے لگی اور اہلِ سنت کے مسلک و مذہب کی تعلیمات کی پاس داری کو دیکھ کر دل میں مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ عام طور پر اہلیانِ ناسک کے تعلق سے یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ یہاں جہالت اور ضعیف الاعتقادی کی بناء پر لوگوں میں شریعت کا پاس و لحاظ نہیں، مزارات پر غیر شرعی اُمور ، ڈھول تاشے کے ساتھ قوالیاں، عورتوں کا ہجوم اور مزارات کو سجدہ و بوسہ ، اور بے پردگی وغیرہ جیسے الزامات تو آئے دن بعض لوگ بلا تحقیق بیان کرتے ہیں لیکن ہم نے دیکھا کے خاص مزار شریف تک عورتوں کی رسائی ہے ہی نہیںبلکہ ان کے لیے مزار شریف سے دور باپردہ اہتمام کیا گیا ہے۔ وہیں خواتینِ اسلام تلاوتِ قرآن و اوراد و وظائف میں مشغول رہتی ہیں۔آستانے میں داخلے پر جالی مبارک سے متصل بورڈ لگا ہے جس پر جلی حرفوں میں لکھا ہے کہ مزارات پرسجدہ کرنا حرام ہے۔ اسی طرح مزارات پر حاضری کے آداب بھی مرقوم ہیں۔اصل مزار شریف سے اتنے فاصلے پر لوہے اور اسٹیل کی سلاخوں سے آڑ بنائی گئی ہے کہ بمشکل ہی ہاتھ مزار شریف تک پہنچ پائیں۔
درگاہ شریف کے سامنے وسیع و عریض میدان ہے۔ جس کے شمال جانب تو شہنشاہِ ناسک کے آستانے کی پُر شِکوہ اور دلکش عمارت، جس کی شوکت و جلال کے آگے شاہانِ وقت کے محلات سر نگوںہوجائیں۔میدان کے مغربی سمت مسجد کی فلک بوس آسمان سے باتیں کرتی عمارت اللہ وحدہٗ لاشریک کی توحید و یکتائی بیان کرتی ہے۔جنوب میں مسافروں کے ٹھہرنے کے لیے پرانا مسافر خانہ کی طرز پرعمارت اور اس سے لگ کر پیدل آنے جانے والوں کا راستہ اور پھولوں اور شیرینی کی دکانیں۔مشرق کی جانب جامعہ اہلِ سنت صادق العلوم ناسک کی عالیشان عمارت دعوتِ نظارہ دیتے ہیں۔میدان اور اس سے لگ کر ہر عمارت پر برقی قُم قُمے(لائٹنگ) ماحول میں عجیب کیف و سرور گھولتے ہیں۔معلوم ہوا کہ آج شہنشاہِ ناسک کے عرس مبارک کا دوسرا دن ہے۔رفیقِ مکرم جناب صوفی رضا نے بتایا کہ’’ حضرت صادق شاہ حسینی علیہ الرحمہ کا عرس ناسک میں سب سے بڑا اور مرکزی عرس ہوتا ہے،جو مکمل شرعی پابندیوں اور احتیاط کے ساتھ منایاجاتاہے۔میدان میں نمازِمغرب کے بعد محفل نعت کا انعقاد کیا جانے والا تھا، جس کے لیے اسٹیج سجایا جارہا تھا اور دوسرے دن اسی میدان میںجلوس کے اختتام پر علماو مشائخِ اہلِ سنت کے بیانات بھی ہونے والے تھے۔‘‘اسی اِثناء میں مغرب کی اذان ہونے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے مسجد نمازیوں سے بھر گئی۔باجماعت نمازِ مغرب ادا کرنے کے بعد ہمارا قافلہ وڈالا روڈکی جانب روانہ ہوا۔ ٹریفک کو عبور کرتے ہوئے ہم کچھ ہی دیر میں ایک زیرِ تعمیر اپارٹ مینٹApartment پر پہنچ گئے جہاں پہلے ہی سے محمد صوفی رضا کے احباب موجود تھے اور انتظامات میں مصروف بھی۔ انہوں نے بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا۔ یہاں ہمیں ایک اہم علمی و دعوتی میٹنگ کرنی تھی جس کی صدارت سرزمینِ کوکن کے عظیم و متحرک فرزندِ جلیل مولانا سید محمد رضوان رفاعی شافعی فرمانے والے تھے۔حضرت سید رضوان رفاعی صاحب ایک بارعب اور علمی شخصیت ہیں، سرزمینِ ناسک پر چند ہی سالوں میں انہوں نے کئی ایک علمی و قلمی معرکے سر کئے ہیں، تقریباً ۳۵؍ کتابیں ان کی نگرانی میں شائع ہوئیں۔آپ فی الحال شہنشاہِ ناسک کے فرزندِ جلیل سابق قاضیِ خاندیش مفتی سید ابوالفتاح حسینی علیہ الرحمہ(مدفون بیسمینٹ مینارہ مسجد ممبئی) کی کتابوں کے قلمی نسخوں پر کام کررہے ہیںجو یقینا اپنے مواد کے اعتبار سے اہلِ سنت کا قیمتی ذخیرہ ہے۔
کچھ ہی منٹوں میں مولانا سید رضوان صاحب بھی تشریف لے آئے۔ان کے ہم راہ ان کے شاگرد حافظ و قاری محمد سالم صاحب بھی تشریف لائے جو اس وقت جنوب ہند میں اہلِ سنت کی عظیم تعلیمی درسگاہ
نے پایا۔ڈاکٹر محمد امام خان، شیخ احمدرضا،محمد تنظیم انصاری، محمد خضر رضوی،محمد شعیب،عابدنواز وغیرہ متحرک احباب پر مشتمل اس ٹیم میں ٹیچر ، انجینئر، ڈاکٹر اور گریجویشن کے طلبا بھی ہیں۔تعارف کے بعد مولانا رضوان صاحب کے حکم پر حافظ سالم نے اپنی مترنم آواز میں تلاوتِ قرآنِ مجید سے محفل کا آغاز کیا۔عتیق الرحمان رضوی نے حمدِ الٰہی پیش کی اور بارگاہِ مصطفی جانِ رحمت میں ہدیۂ نعت محمد صوفی رضا نے پیش کیا۔برادرم غلام مصطفی رضوی نے میٹنگ کے اغراض و مقاصد بیان کیے اور سرزمینِ ناسک پر اشاعتی و قلمی کام انجام دینے اور اہلِ سنت و جماعت کے تحفظ و فروغ کے ساتھ ساتھ اصلاحِ معاشرہ کے تعلق سے تبادلۂ خیال ہوا۔یوں سمجھا جائے کہ یہ ملاقات ناسک سطح پر اہلِ سنت کی اشاعتی و دعوتی اور اصلاحی و تعمیری امور پر ایک کنونشن کی شکل اختیار کرگئی۔تمام احباب نے حصہ لیا،نیک اور مفید مشورے دیے اور ان پر عمل آوری کا تیقن بھی دلایا ۔مولانا رضوان صاحب نے بھی اپنے مدبرانہ و مفکرانہ مشوروں سے رہ نمائی کی۔اور شہرِ ناسک میں اہل سنت کی سرگرمیوںکے حوالے سے معلومات افزا گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سرزمینِ ناسک ہمیشہ ہی سے اکابر علما و مشائخ اہلِ سنت کی آماجگاہ رہی ہے۔ اکابر کی آمد اور ان کی نگاہِ کیمیا اثر نے ہر دور میں اس سر زمین کو اپنی مذہبی شناخت کے حوالے سے اسلام کا گلشنِ بے خار ہی رکھا۔بالخصوص ماضی قریب میں مفتیِ نانپارہ مفتی رجب علی رضوی علیہ الرحمہ نے اس گلشن کی آب یاری اپنے خونِ جگر سے کی۔ اسی طرح مفتی عبدالغنی نصیرآبادی علیہ الرحمہ نے اہلیانِ ناسک کے درمیان جو کام کیا ہے اس کی بہاریں آج بھی تازہ ہیں۔ بالخصوص ناسک کاکتھڑا علاقہ، جو کبھی اخلاقی و تمدنی لحاظ سے کافی پس ماندہ ، پچھڑا ہوا اور بدنام تھا اس بنجر بستی میں مفتی عبدالغنی نے اس جاںفشانی اور خلوص و للہیت سے دعوت و تبلیغِ اسلام اور اصلاحِ معاشرہ کا فریضہ انجام دیاکہ روزانہ کتھڑا کی مسجدمیں مختلف دروس اور عقائد و اعمال کی اصلاح کے لیے بہارِ شریعت کے مستقل درس نے بالعموم باشندگانِ کتھڑااور بالخصوص نوجوانانِ ناسک کی زندگیوں میں صالح اسلامی انقلاب کی روح پھونکی۔ نوجوان طبقہ دین سے قریب ہوا۔ چہرے پر سنتِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بہاریں لہلہانے لگیں اور دلوں میں فرامینِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر عمل آوری کے جذبات نے اس علاقے کو مذہبی سرگرمیوں کا مرکز بنادیا۔
مولانا رضوان شافعی کی اس گفتگو سے صرف ناسک کی مذہبی تاریخ ہی نہیں معلوم ہورہی تھی بلکہ وہ ناسک میں اہلِ سنت کی اصلاحی خدمات کا اجمالی جائزہ بھی پیش کررہے تھے، اور نوجوانوں کے حوصلوں کو مہمیز لگارہے تھے کہ ناسک کی سرزمین دینی دعوت اور خدمات کے حوالے سے بہت زرخیز ہے صرف صحیح سمت میں اپنے کارواں کو موڑنے اور اسے متحرک و مستعد رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر اس میں کام یابی مل گئی تو یقینا بہت ہی کم عرصہ میں اس سر زمین سے کئی معرکے سر کیے جاسکتے ہیں اور کئی محاذوں پر اہلِ سنت کی نمائندگی کی جاسکتی ہے۔ بس مستقل مزاجی اور خلوص و للہیت کے ساتھ دین و سنیت کی خدمات انجام دی جائے ان شاء اللہ کامیابی ہمارے قدم چومے گی اور ایک نیا انقلاب ناسک کی سرزمین سے ابھرے گا ۔
گفتگو جاری تھی اس درمیان میں وقت کی تنگی کو محسوس کرتے ہوئے ایک اہم کام کی طرف قدم بڑھادیا گیا اور نوری مشن مالیگاؤں کے ذمہ داران نے ناسک کی اس ٹیم کو مولانا سید رضوان رفاعی کی نگرانی میں نوری مشن کی شاخ ناسک میں قائم کرنے کا تفویض نامہ مولانا موصوف کے دستِ مبارک سے پیش کیا۔ جسے وصول کرتے ہوئے نوری مشن ناسک کے احباب نے عہد کیا کہ باہم مشاورت سے خدمتِ دین کا فریضہ انجام دیا جائے گا۔ اس موقع پر مولانا موصوف نے مشورہ دیاکہ حالاتِ حاضرہ کے پیش نظر ضروری ہوگیا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف صہیونی اور بھگوا پروپیگنڈوں اورسازشوں سے قومِ مسلم کو بچانے کے لیے آپ مستعدوچوکنا رہیں۔ اس سلسلے ہندستان میں آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کی جو سازش مسلم بچیوں کو فریب دینے اور پردہ کی مخالف تحریک کا تذکرہ کرتے ہوئے موصوف نے مشورہ دیا کیااسلامی پردہ سے متعلق بالخصوص اسکول ،کالج اوریونی ورسٹی کی مسلم طالبات میںبے داری پیدا کرنے کے لیے لٹریچر کی اشاعت کی جائے ۔اس مشورہ پر غلام مصطفی رضوی نے کہا کہ اس موضوع پر پروفیسر مسعود احمد نقش بندی علیہ الرحمہ کی جامع کتاب ’’عورت اور پردہ‘‘ نوری مشن مالیگاؤں کی جانب سے ناسک کی ٹیم کو ٹائپ شدہ دوسرے ہی دن ای میل کر دی جائے گی جسے شاخ ناسک نے قبول کیا اور اسلامی پردہ سے متعلق نوری مشن ناسک کی پہلی اشاعت ہونا طے پائی۔
رات کے تقریباًسوا دس بج چکے تھے۔ مولانا سید رضوان رفاعی کی کسی عزیزکے یہاں پہلے ہی سے دعوت متعین تھی ۔ اس کے باوجود انہوں نے ہمیں اپنے ڈھائی گھنٹے عطا کیے ۔صلاۃ و سلام اور مولانا موصوف کی دعا پر مجلس برخاست ہوئی۔ مولانا موصوف کی خدمت میں نوری مشن مالیگاؤں کی مطبوعات کا سیٹ پیش کیا گیا۔پر تکلف عشائیہ کے بعد نوری مشن ناسک کے ذمہ داران کو بھی مشن کی مطبوعات کے سیٹ پیش کیے گئے۔ساڑھے گیارہ بجے ہمارا وفد مالیگاؤں واپسی کے لیے نکلا اور رات ایک بجے شہر پہنچے۔ مدینہ مسجد میں نماز عشا ء اداکی۔دوسرے دن نوری مشن شاخ ناسک کو کتاب ’’عورت اور پردہ‘‘ ای میل کردی گئی۔تادمِ تحریر اطلاع کے مطابق مذکورہ کتاب اشاعت کے لیے پریس پہنچ گئی ہے اور جلد ہی منظرِ عام پر ہوگی۔ فالحمد ﷲ علی ذالک!
جامعہ سعدیہ کیرالہ میں فضیلت کی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ایک دوسرے کا تعارف ہوا۔ الحمدللہ! ناسک کے احباب میںاعلیٰ تعلیم یافتہ اور دین و سنیت کا درد رکھنے والے مخلص افراد کی ایک فعال ٹیم کو ہم