حفیظ نعمانی
رمضان شریف میں کہیں نہ کہیں بھگوا بریگیڈ کوئی ایسا مسئلہ کھڑاکردیتا ہے جس سے پورا رمضان مسلمانوں کے لئے رحمت کے بجائے زحمت بن جائے۔ اترپردیش میںشری ملائم سنگھ کی ہی حکومت تھی جب مﺅناتھ بھنجن میں ایک مسجد کے سامنے ہندو واہنی کے جلوس نے کھڑے ہوکر باجا بجانا شروع کیا یہ وہ وقت تھا جب مسجد میں تراویح ہورہی تھی۔ نمازیوں کے اعتراض کرنے پر بات اتنی بڑھی کہ پورا مﺅ جلا ڈالا اور پورا رمضان کرفیو میں اس طرح گذرا کہ روزے داروں کو روزے پر روزے رکھنا پڑے۔ دو سال پہلے بریلی میں پورا رمضان کرفیو میں گذرا اور مسلمانوں پر کیا گذری اسے بس وہی جانتے ہیں؟
کسی مسجد پر لاﺅڈ اسپیکر اب کوئی نئی بات نہیں ہے اب تو گاﺅں گاﺅں مسجدوں میں لاﺅڈ اسپیکر ایسے ہی ہوگئے ہیں جیسے بجلی کے پنکھے اور شہروں کی مسجدوں میں اے سی لیکن اگر کسی مسجد مں شرپسند بھگوا ہندو نہیں چاہتے کہ وہاں لاﺅڈ اسپیکر سے اذان ہو تو سنجیدہ مسلمانوں کو مداخلت کرکے اس پر اصرار نہ کرنا چاہئے اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ لاﺅڈ اسپیکر اذان کا جزو نہیں ہے۔ اذان کے بارے میں صرف یہ حکم ہے کہ نمازیوں میں جس کی آواز بلند ہوں اسے اذان دینا چاہئے۔ لیکن کسی نمازی کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ اذان کی آواز سن کر ہی نماز کے لئے مسجد جائے۔ نماز کا وقت ہر نمازی کو معلوم ہوتا ہے اور اب تو شاید ہی کوئی ایسا نمازی ہو جس کے پاس گھڑی نہ ہو یا موبائل نہ ہو اس لئے اسے دین میں مداخلت یا رکاوٹ نہیں کہا جاسکتا۔
اس سال کی 16 مئی کے بعد ہر مسلمان کو مان لینا چاہئے کہ اب دستور کی دہائی دینا قبرستان میں اذان دینا ہے اس لئے کہ اب دستور وہ ہے جسے بی جے پی یا آر ایس ایس کا ہندو کہے۔ مسلمانوں کو اس وقت یہ ڈھارس ہے کہ صوبہ میںملائم سنگھ کی حکومت ہے اور کانٹھ (مراد آباد) اترپردیش میں ہے لیکن انہوں نے یہ نہیںدیکھا کہ شاید یہ پہلا موقع ہے کہ ایک ہفتہ سے مہاپنچایت کو حکومت روک رہی تھی اور انجام یہ ہوا کہ پولیس اور آر ایس ایس کے کارسیوکوں میں جو پتھر بازی ہوئی ہے اس میں ایک مجسٹریٹ صاحب زخمی ہوئے، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بری طرح زخمی ہوئے اور کئی پولیس افسر لہولہان ہوگئے لیکن ملک کے راج کماروں میں صرف ایک زخمی ہوا؟ کیا ملک کے مسلمان یہ نہیں دیکھ رہے تھے کہ پولیس کے پاس لاٹھیاں بھی تھیں اور رائفلیں بھی لیکن وہ لونڈوں کی طرح پتھر کا جواب پتھر سے دے رہے تھے۔ لیکن اگر شاہ زادوں اور امت شاہ کے چیلوں کی جگہ مسلمان ہوتے تو شاید ریل کی پٹری لاشوں سے پٹ گئی ہوتی۔
ہم نئی نویلی حکومت سے نہیں بلکہ ہر حکومت سے معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ یہ پنچایت کیا ہے اور کیوں ہے؟ گاﺅں گاﺅں تھانے ہیں ہر تحصیل میں چھوٹی اور ہر ضلع میں کئی کئی عدالتیں ہیں ہائی کورٹ ہے اور سپریم کورٹ ہے تو پھر پنچایت غیرقانونی کیوں نہیں قرار دی گئی؟ ہندو مہاپنچایت تو ہم نے پہلی بار سنا اب تک پنچایت اور کھاپ پنچایت جاٹ اور گوجر بلایا کرتے تھے اور ہر صوبہ کی حکومت ہجڑے کی طرح سر پر ساڑی کا پلّو ڈال کر بیٹھ جاتی تھی پھر جو وہاں خونی فیصلے ہوجاتے تھے تو ہٹو بچو کہتی ہوئی آتی تھی اور دو چار کو گرفتار کرکے لے جاتی تھی۔ ہم یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ کہیں بھی پنچایت کیوں کی جاتی ہے؟ اور اسے اس طرح منتشر کیوں نہیں کیا جاتا کہ سو پچاس اسپتال میں ہوں اور دو چار اپنے انجام کو پہونچ جائیں؟ راجستھان میں گوجروں نے دو بار پنچایت کی اور پندرہ دن کوئی ریل جے پور نہیں آنے دی جاٹو ں نے جب چاہا ریل کی پٹریوں پر اپنی جاٹنیوں کو چولھا چکی لاکر بٹھا دیا اور ٹرینوں کا آنا جانا بند کردیا حکومت نے کروڑوں کا نقصان بھی اٹھایا اور ان کا حکم بھی مانا تب دھرنا ختم ہوا۔
ہم نے یہ تو پڑھ لیا کہ پولیس نے شاہزادوں کو گرفتار کرلیا معلوم نہیں ان کا کیا کیا؟ لیکن ایک بات اپنے نوجوان گرم خون والے وزیر اعلیٰ سے معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ جب پولیس کو انہوں نے گولی اور لاٹھی چلانے سے روک دیا تھا تو یہ حکم کیوں نہیں دیا کہ وردی تھانے میں اتارکر سادے کپڑوں میں جاکر پتھر ماری کریں؟ ہوسکتا ہے کہ انہیں یہ مضحکہ خیز نہ لگا ہو کہ بہادر سپاہی ایک ہاتھ سے رائفل سنبھال رہے تھے دوسری سے اپنی پینٹ اور دس پتھروں کے جواب میں ایک پتھر مار پاتے تھے۔ ہمیں تو ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ملائم سنگھ کے فرزند اب اپنی حکومت کو بچانے میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں۔ وہ سمجھ گئے ہیں کہ مسجد اور لاﺅڈ اسپیکر تو ایک بہانہ ہے بی جے پی یہ چاہتی ہے کہ شری اکھلیش کو اتنا پریشان کرو کہ وہ گولی چلوادیں اور شری مودی کو یہ بہانہ مل جائے کہ اکھلیش یادو کیونکہ صورت حال قابو میں نہیں کرپارہے اس لئے چھ مہینے کے لئے صدر راج نافذ کیا جاتا ہے تاکہ ریاست کے حالات قابو میں آجائیں۔
ملائم سنگھ کی وہ پہلی حکومت تھی جس میں کارسیوکوں نے بابری مسجد پر چڑھائی کی تھی تعداد لاکھوں نہیں ہزار دو ہزار تھی اس وقت بھی پہلے پولیس نے چاہا کہ پتھر مارکر ان لوگوں کو اوپر سے اتار لیں جو مسجد پر چڑھ گئے تھے۔ جو کارسیوک چڑھے نہیں تھے انہوں نے پتھراﺅ شروع کردیا ان میں سے ایک پتھر ایک انسپکٹر کے ماتھے پر اتنی زور سے لگا کہ خون کی دھار چھوٹ گئی اور ساری وردی سرخ ہوگئی۔ اس وردی کا سرخ ہونا تھا کہ اس کے ماتحتوں نے رائفل کے دہانے کھول دیئے اور مسجد کے گنبد سے گٹھری کی طرح جیالے گرتے دیکھ کر جو ندی میں کود سکا وہ ندی کے راستے بھاگا اور جو چھپ سکا وہ چھپ گیا (یہ کیسیٹ آج بھی دیکھا جاسکتا ہے) لیکن یہ صرف ایک انسپکٹر کے خون کا انتقام تھا کانٹھ میں تو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بری طرح زخمی ہوئے ایک مجسٹریٹ زخمی ہوئے پولیس افسر اور ماتحت زخمی ہوئے لیکن گولی نہیں چلی صرف اس خوف سے کہ اب جو حکومت آئی ہے اسے اگر ایک چھوٹا سا بہانہ بھی مل گیا تو وہ گورنر سے کہہ دے گی کہ چابیاں لے لو۔ کاش مسٹر اکھلیش جوانمردی دکھلاتے اور وہی کرتے جو ایسے موقع پر کیا جاتا ہے اور اس کے بعد الیکشن کے میدان میں بہادر کی طرح اترتے تو نتیجہ پھر ان کے حق میں ہوسکتا تھا اس لئے کہ بہادر کو سب پسند کرتے ہیں بزدل کو کئی نہیں۔(یو این این)