جنیوا، 7 نومبر:امریکہ ایران پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ ایٹمی سمجھوتہ کے لئے آئندہ دو روز کے دوران “پہلا قدم” آگیبڑھائے۔
مذکورہ سمجھوتے کا مقصد ایران کے ایٹمی پروگرام کی توسیع روکنا اور اس کے بعض حصوں کو ختم کرنا ہے۔
عالمی طاقتوں کے ساتھ دو روزہ بات چیت کے موقع پر امریکی انتطامیہ کے ایک سینیئر افسرنے کل کہا کہ ایران کے قدم بڑھانے کے عوض امریکہ اسے ان پابندیوں میں “بہت محدود اور عارضی راحت” کی پیشکش کرسکتا ہے جو اس نے ایران کی ایٹمی سرگرمیوں کو روکنے کے دباؤ ڈالنے کی غرض سے لگائی تھی کیونکہ امریکہ کو شک تھا کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانا چاہتا ہے۔
ایک افسر نے بتایا کہ “پہلی مرتبہ ایران کا مذاکرات کے عمل کو تیزی سے آگے بڑھانے کا ارادہ ظاہر ہورہا ہے۔ مگر ابھی کسی بات پر اتفاق رائے نہیں ہوا ہے دونوں طرف کہیں نہ کہیں ہچکچاہٹ ضرور ہے۔
یہ جنیوا مذاکرات کا دوسرا مرحلہ ہے اس کا مقصد ایران کے ساتھ تنازعہ کا سفارتی حل نکالنا ہے ۔ حسن روحانی کے صدر بننے کے بعد سے ایران کے رویہ میں لچک آئی ہے۔ انہوں نے مغرب کے ساتھ مذاکرات کا دروازہ کھولا ہے۔
امریکہ نے اس مرتبہ کی بات چیت کو مثبت بتایا ہے ورنہ پچھلی مرتبہ مغربی شرکاء مطمئن نہیں تھے انکا کہنا تھا کہ ایرانی اکثر بڑی بڑی تقریریں کرتیہیں جس سے ایٹمی پروگرام کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔
ایک افسر نے کہا کہ اس ہفتہ ایران اور 5 بڑی طاقتوں ۔ برطانیہ، چین، فرانس، روس، امریکہ اور جرمنی کے ساتھ میٹنگ میں اسی پر آگے بڑھنا ہوگا۔
یہ پہلا مرحلہ ہے پہلا قدم مفاہمت کا آغاز ہیجس میں ایران کے ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھنے سے روکا گیا ہے کء دہائیوں کے بعدوہ پہلی مرتبہ اس پروگرام کو بند کرنے پر راضی ہوا ہے۔
سمجھوتہ کے لئے ضروری ہوگا کہ ایران اپنے یورینیم مقوی بناکے پروگرام کو 20 فیصد اورخالص کی سطح پر روک دے۔سینٹری فوج پروگرام کی توسیع روکے اور اقوام متحدہ کے انسپکٹروں کو معائنہ کی اجازت دے۔