ریو ڈی جینرو۔برازیل کیلئے حال میں اختتام ہوا عالمی کپ اتار چڑھائو والا رہا جہاں اس میدان کے اندر اندر مایوسی کا سامنا کرنا پڑا لیکن میدان کے باہر ٹیم کیلئے یہ ٹورنامنٹ بہت اچھا رہا۔ برازیل کو امید تھی کہ وہ ہر حال میں فٹ بال ٹورنامنٹ جیت لے گا لیکن ٹیم
اس میں کامیاب نہیں ہو سکی جبکہ لوگوں نے اندیشہ ظاہر کیا تھا کہ انتظامی سطح پر ٹورنامنٹ ناکام ہو سکتا ہے لیکن اس معاملے میں ٹورنامنٹ کافی کامیاب رہا۔ برسوں سے ملک کی حکومت کو اسٹیڈیم کے کاموں میں تاخیر کی وجہ سے فیفا کی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔عوامی خدمات کے خراب سطح کے باوجود ٹورنامنٹ پر اربوں ڈالر خرچ کئے جانے سے ناراض لوگ سڑکوں پر مظاہرہ کر رہے تھے۔ غیر ملکی ٹیبلائیڈ نے شائقین کو تشدد کے فی ہوشیار کیا تھا جبکہ گھریلو اخبارات نے ورلڈ کپ کی تیاری سے منسلک تقریبا تمام پہلوؤں کیلئے حکام کی تنقید کی تھی۔ کئی سنگین تشویش اگرچہ اب بھی برقرار ہیں جیسے عالمی کپ کاموں سے وابستہ بدعنوانی، کھیلوں کی میزبانی سے ملک کو اقتصادی فائدہ ہوگا یا نہیں اور ٹورنامنٹ کی سب سے بڑی وراثت کے طور پر جن بنیادی ڈھانچہ کے منصوبوں کا وعدہ کیا گیا وہ کبھی پوری ہوں گی بھی یا نہیں۔اس حقیقت سے اگرچہ کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ برازیل دنیا کو بغیر کسی رکاوٹ کا ظاہر کھیل ٹورنامنٹ دینے میں کامیاب رہا جو تمام امیدوں پر کھرا اترا۔ اتوار کی رات فین فیسٹ میں فائنل میچ دیکھنے والے مشی گن کے انسٹرکٹرنے کہامجھے لگتا ہے کہ یہ بے مثال تھا۔ایمانداری سے کہوں تو میں نے سوچا تھا کہ یہ بڑی سانحہ ہونے والا ہے لیکن یہ اچھا لگا۔ مجھے لگتا ہے کہ لوگ بہت خوش ہیں۔ برازیل کے لوگ اگرچہ ایک آغاز پر ان سے متفق نہیں ہوں گے۔انہیں اپنی ٹیم کی سیمی فائنل می ہار اور پھر تیسرے مقام کے پلے آف میں ہالینڈ کے ہاتھوں 0-3 کی شکست کی مایوس کن صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے باوجود صدر ورلڈ کپ کی کامیابی اور اپنے ناقدین کو غلط ثابت کرنے سے خوش ہیں۔ روسیف نے کہا کہ ورلڈ کپ کی کامیابی سے ان ریو میں 2016 میں ہونے والے اولمپک کھیلوں کی میزبانی کے فی اعتماد ملے گا۔ برازیل کو غیر ملکی شائقین کے آنے سے بھی مدد ملی جو کچھ نیا دیکھنے کی امید کے ساتھ آئے تھے۔ کسی کو بھی جرمنی میں 2006 میں ہوئے ورلڈ کپ کی طرح کی سہولت اور عین مطابق انعقاد کی امید نہیں تھی۔اور یقینی طور پر کچھ مسائل بھی تھے۔ریو اور ساؤ پالو جیسے شہروں میں میچ کے دوران ہمیشہ ٹریفک جام کا مسئلہ دیکھنے کو ملا۔ہوائی اڈوں کی صلاحیت 12 میزبان شہروں کے درمیان ہزاروں مداحوں کی سفر کی تو تھی لیکن اس طرح کی سہولتیں نہیں تھی جس کے یورپی یا شمالی امریکہ عادی ہوتے ہیں۔جیب کاٹنا اور لوٹ جیسے جرائم کی شکایات بھی سامنے آئی ۔ لیکن کوئی بڑا احتجاج دیکھنے کو نہیں ملا جیسا گزشتہ سال کنفیڈریشن کپ کے دوران ہوا تھا جو عالمی کپ کا ٹسٹ ٹورنامنٹ تھا۔ اندیشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ ٹرانسپورٹ اہلکاروں اور پولیس کی ہڑتال سے ٹورنامنٹ متاثر ہو سکتا ہے لیکن ورلڈ کپ کے آغاز سے پہلے ہی ان مسائل کو حل کیا گیا۔ ڈھانچے کی حفاظت کو لے کر کچھ تشویش ہونے کے باوجود اسٹیڈیم توقعات پر پورے اترے۔