موجودہ دور میں جس طرح کا کھان پان اور رہن سہن ہے اس میں بڑے ہی نہیں بلکہ کم عمر کے بچے بھی ذیابیطس کے شکار ہونے لگے ہیں۔ بچوں میں وائرل ، سردی کھانسی، زکام تو عام پریشانیاں ہیں لیکن جب بچے ذیابیطس جو بچوں کی بیماری نہیں، کی زد میں آ جائیں تو حیرانی ضرور ہوتی ہے۔ اس مرض میں جسم کے پینکریاز میں انسولین بنانے والے سیلز ختم ہو جاتے ہیں۔ ذیابیطس کی دو قسمیں ہیں – ایک ٹائپ ون ، دوسری ٹائپ ٹو ۔ اگر عمر کی بات کی جائے تو ایک سال سے دس سال تک کی عمر کے بچوں میں ٹائپ ون ذیابیطس کی علامتیں پائی جاتی ہیں۔ اصل میں ذیابیطس کی یہ
قسم بچوں میں اکثر پیدائشی ہوتی ہے اور اس میں شروع سے ہی بچوں کے جسم میں پینکریاز میں انسولین بنانے والے سیلز ختم ہو جانے کے سبب انہیں ہمیشہ باہر سے ہی انسولین لینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ وہیں ٹائپ ٹو قسم کی ذیابیطس بچوں میں تنائو، موٹاپا زیادہ مقدار میں جنک فوڈ کھانے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ایک مطالعہ کے مطابق پچاسی فیصد بچوں میں ٹائپ ٹو ذیابیطس پایا جاتا ہے۔ ذیابیطس ہونے کے بعد دس سے پندرہ سال کے وقفے میں بچوں کی گردے ، جگر اور دل پر اثر پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہارٹ اٹیک اور گردے خراب ہونے جیسی بڑی بیماریاں ہو سکتی ہیں۔ ٹائپ ون ذیابیطس زیادہ خطرناک ہوتا ہے جبکہ ٹائپ ٹو ذیابیطس کو دوائیوں، متوازن ڈائٹ اور ورزش کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ بچوں میں چھ سے پندرہ سال کی عمر تک ذیابیطس کی وجہ فاسٹ فوڈ جیسے برگر ، پیزا، پیسٹری ، سافٹ ڈرنکس ، ہائی کیلوریز فوڈ وغیرہ ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کے معمولات میں زیادہ وقت تک ٹی وی دیکھنا، کمپیوٹر یا ویڈیو گیم کھیلنا بھی شامل ہو گیا ہے۔ نتیجتاً بچوں کی جسمانی سرگرمیاں بہت کم ہو گئی ہیں جس کی وجہ سے وہ بہت آسانی سے ذیابیطس کے شکار ہو جاتے ہیں۔اگر بچے کو زیادہ بھوک اور پیاس لگ رہی ہے ، اس کو بار بار پیشاب کرنا پڑ رہا ہے ، آنکھوں سے دھندلاپن دکھائی دے رہا ہے، اچانک وزن میں کافی تیزی سے کمی ہو رہی ہے تو یہ تمام بچے میں ذیابیطس کی شروعات کی علامتیں ہیں ۔ اس بیماری میں بچوں کو جسمانی کمزوری کا بھی احساس ہوتا ہے۔آپ کے بچے کو ذیابیطس نہ ہو اس کے لئے وقت رہتے آپ کو چوکنا رہنا ضروری ہے۔ اسے گھر کا بنا کھانا کھانے کو دیں۔ اس کے علاوہ مخصوص پھل اور سبزیاں دے سکتی ہیں۔ کیونکہ کچھ پھلوں کے استعمال کو بھی اس مرض میں منع کر دیا جاتا ہے۔ اس بات کا پورا خیال رکھنا ہو گا کہ بچے متوازن ڈائٹ لیں۔ اسے روزانہ ورزش کی عادت ڈالوائیں۔اگر بچے کو ذیابیطس مرض ہو جائے تو اس کا اثر اس کی پڑھائی پر بھی پڑ سکتا ہے کیونکہ اس مرض میں یادداشت کمزور پڑ جاتی ہے۔ دراصل ذہن میں ہونے والے تمام عمل گلوکوز پرمبنی ہوتے ہیں اور دماغ میں گلوکوز محدود مقدار میں ہوتا ہے۔ ٹائپ ون اور ٹائپ ٹو ذیابیطس کے مریضوں میں یادداشت کا مسئلہ زیادہ ہوتا ہے۔ذیابیطس سے دوچار بچوں کے ساتھ کھانے پینے کا مسئلہ پیچیدہ ہوتا ہے۔ ایسے بچے کو کیلے، لیچی، چیکو اور کسٹرڈ سیب جیسے پھل نہیں دیں۔ لیکن تربوز، خربوزہ ، پپیتا ، سیب اور اسٹرابیری دے سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ وٹامن سی اور فائبر والا آنولہ بھی کھا سکتے ہیں۔ اگر ذیابیطس کے شکار بچے کیوی پھل کا استعمال کریں تو اس کا بلڈ پریشر کم ہو سکتا ہے۔ اسی طرح انار بھی ذیابیطس کے مرض میں فائدہ پہنچانے والا پھل ہے۔ ناشپاتی کے استعمال سے انہیں فائبر اور وٹامن جیسے غذائیت سے بھرپور اجزاء حاصل ہوتے ہیں جو ذیابیطس میں بھی راحت دیتا ہے۔ذیابیطس کے شکار بچوں کا وزن وقت وقت پر ناپتے رہنا چاہئے۔ ٹائپ ون ذیابیطس سے وزن بہت تیزی سے کم ہوتا ہے۔ اس مرض میں انسولین کا بننا تقریباً کم ہو جاتا ہے جو گلوکوز کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ گلوکوز ان چیزوں سے حاصل ہوتا ہے جنہیں ہم کھاتے ہیں اور یہ جسم کے لئے ایندھن کا کام کرتا ہے۔ ٹائپ ون ذیابیطس میں جسم اس گلوکوز کو صحیح طریقے سے استعمال نہیں کر پاتا ہے اس لیے یہ پیشاب کے راستے جسم سے باہر نکل جاتا ہے۔ اکثر بچے کھیلنے کودنے کے دوران بہت جلد تھکاوٹ محسوس کرتے ہیں۔