گذشتہ ہفتے قتلِ عام کی 19ویں برسی کے موقعے پر سینکڑوں بوسنیائی سریبرینتسا آئے
ایک ولندیزی عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ نیدرلینڈز 1995 میں بوسنیا ہرسیگووینا کے شہر سریبرینتسا میں 300 سے زیادہ بوسنیائی مسلمان مردوں اور لڑکوں کی ہلاکت کا ذمہ دار ہے۔
یہ 300 مرد اور لڑکے ان پانچ ہزار بوسنیائی شہریوں میں شامل تھے جنھوں نے پوتوکاری میں اقوامِ متحدہ کے ولندیزی امن مشن میں پناہ لی تھی۔
عدالت نے کہا ہے کہ جب ولندیزی حکومت نے ان افراد کو سربوں کے حوالے کیا تو اسے معلوم ہونا چاہیے تھا کہ انھیں قتل کر دیا جائے گا۔
سریبرینتسا میں ہونے والے قتلِ عام میں سات ہزار سے زیادہ مردوں اور لڑکوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ یہ دو
سری جنگِ عظیم کے بعد یورپ میں ہونے والی بدترین خونریزی تھی۔
تلافی
یہ مقدمہ مقتولین کی لواحقین نے شروع کیا تھا جو اپنے آپ کو ’سریبرینتسا کی مائیں‘ کہتی ہیں۔
ہیگ کی ایک عدالت نے کہا کہ ولندیزی امن کار فوج ’ڈچ بٹالین‘ نے تین سو بوسنیائی شہریوں کے تحفظ کے لیے کچھ نہیں کیا، اور انھیں ان کے ممکنہ قتلِ عام کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے تھا۔
عدالت نے کہا: ’یہ بات خاصے یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر ڈچ بٹالین نے انھیں عمارت کے اندر رہنے دیا ہوتا تو وہ نہ مارے جاتے۔ ان افراد کی بےدخلی میں تعاون کر کے ڈچ بٹالین نے غیرقانونی کام کیا۔‘
مبصرین کے مطابق ولندیزی حکومت کو اس واقعے کی کسی حد تک ذمہ داری قبول کرنی چاہیے اور ان تین سو مقتولین کے خاندانوں کو معاوضہ ادا کرنا چاہیے۔
مقتولین کے لواحقین نے عدالت کے فیصلے کے بعد ایک دوسرے کو گلے لگا لیا
لیکن عدالت نے نیدرلینڈز کو سریبرینتسا میں ہونے والی ہلاکتوں کی اکثریت کا ذمہ دار قرار نہیں دیا۔ اس کا کہنا ہے کہ قتلِ عام کا نشانہ بننے والے پناہ گزینوں کی اکثریت اقوامِ متحدہ کے احاطے میں آنے کی بجائے ’سریبرینتسا کے نواح میں واقع جنگل کی طرف بھاگ گئی تھی۔‘
بی بی سی کی نامہ نگار آنا ہولیگن عدالت میں موجود تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اگرچہ یہ فیصلہ بہت اہم ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ لواحقین کے لیے اندوہ ناک بھی ہے کیوں کہ ولندیزی حکومت کو سات ہزار سے زیادہ مقتولین میں سے صرف 300 کے قتل کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ لواحقین کی اکثریت تلافی کی حق دار نہیں ہے۔
1992 سے 1995 تک ہونے والی جنگ میں جب سربوں نے بوسنیائی مسلمانوں کے خلاف نسل کشی کی کارروائیاں شروع کیں تو آس پاس کے علاقوں میں رہنے والے بوسنیائیوں نے سریبرینتسا میں پناہ لے لی تھی۔
اقوامِ متحدہ نے 1993 میں سریبرینتسا کو شہریوں کے لیے ’محفوظ علاقہ‘ قرار دیا تھا۔ تاہم دو سال کے محاصرے کے بعد شہر پر سربوں نے قبضہ کر لیا۔ ہزاروں بوسنیائی بھاگ کر سریبرینتسا کے قریب واقع پوتوکاری کیمپ چلے گئے جہاں ولندیزی امن کار فوجی تعینات تھے۔
تاہم ولندیزی فوجیوں نے ان پناہ گزینوں سے کہا کہ انھیں سرب فوج کے حوالے کر دیا اور انھیں کہا کہ وہ محفوظ رہیں گے۔
سربوں نے ان پناہ گزینوں میں شامل عورتوں اور بچوں کو مسلمانوں کے اکثریتی علاقے تک پہنچا دیا گیا لیکن سات ہزار سے زائد مردوں اور لڑکوں کو کیمپ سے لے جا کر قتل کر دیا۔
ان مقتولین کی اکثریت اب بھی مشرقی بوسنیا میں مختف جگہوں پر اجتماعی قبروں میں دفن ہے۔
اس زمانے میں سربوں کے دو رہنماؤں، سابق صدر رادوان کاراجچ اور جنرل راتکو ملادچ، پر ہیگ ہی جنگی جرائم کے الزام کے تحت مقدمہ چل رہا ہے۔