نئی دہلی (بھاشا) گاڑیوں کی فروخت میں کمی، اونچی لاگت اور شرح سود میں کمی اور سرمایہ کاری میں ۵۰ فیصد سے زیادہ کی گراوٹ کے سبب گاڑیوں کے پارٹس بنانے والی کمپنیوں کے کاروبارمیں ۱۴۔۲۰۱۳ میں گذشتہ ۶ مالی سال کے دوران پہلی بار گراوٹ دیکھی گئی۔ آٹو موبائل کمپوننٹ منیوفیکچرنگ ایسو سی ایشن (اے سی ایم اے) کی جانب سے آج یہاں جاری اعداد وشمار کے مطابق گذشتہ مالی سال کے دوران آٹو پارٹس صنعت میں کل ۲۱۱۷ کروڑ روپئے کا کاروبار ہوا۔ جو مالی سال۱۳۔۲۰۱۲ کے ۲۱۶۰ کروڑ روپئے کے مقابلے تقریباً ۲ فیصد کم ہے۔ واضح رہے کہ گذشتہ
مالی سال سے قبل مسلسل ۴ سال میں اس میں اضافہ ہوا تھا۔ ایسو سی ایشن کے صدر ہریش لکشمن نے بتایا کہ ملک میں اس وقت شرح سود دنیا کے کسی دیگر ملک کے مقابلے زیادہ ہے جس سے سرمایہ لاگت بڑ ھ رہی ہے ساتھ ہی سرمایہ کاری گرکر ۵ سال کی نچلی سطح ۳۲ سے ۴۴ کروڑ رو پئے کے درمیان رہ گیا جب کہ مالی سال ۱۳۔۲۰۱۲ میں یہ ۶۹ سے ۹۵ کروڑ روپئے کے درمیان رہا تھا حالانکہ انھوں نے کہا کہ برا وقت اب پیچھے چھوٹ چکا ہے اور گاڑیوں کی فروخت ایک بار پھر رفتار پکڑرہی ہے۔ جس سے آنے و الے وقت میں آٹو پارٹس کے کاروبار کو بھی رفتار ملے گی۔
مسٹر لکشمن نے کہ اس دوران اچھی بات یہ رہی کہ برآمدات میں ۷ء۱۶ فیصد کا اضافہ درج کیا گیا اور یہ ۱۳۔۲۰۱۲ کے ۵۲۶ کروڑروپئے سے بڑھ کر ۶۱۴ کروڑ روپئے ہوگیا۔ حالانکہ برآمدات بھی ۷۴۴ کروڑ روپئے سے بڑھ کر ۷۷۱کروڑ روپئے پر پہنچ گیا۔ انھوںنے کہا کہ رواں مالی سال میں آٹو پارٹس کی صنعت کی شرح ترقیات ۴ سے ۶ فیصد رہنے کی امید ہے جب کہ مالی سال ۱۶۔۲۰۱۵ میں ۱۰ فیصد ترقی کی امید کی جاسکتی ہے۔
ایم سی ایم اے کے نائب صدر رمیش سوری نے بتایاکہ گذشتہ دوسال کی اقتصادی کساد بازاری سے نکلنے میں صنعت کو وقت لگے اور رواں مالی سال کی تیسری اور چوتھی سہ ماہی میں مثبت نتائج ملنے کی امیدہے۔ انھوں نے کہاکہ بجلی اور بنیادی ڈھانچہ صنعت کے سامنے دو سب سے بڑے مسائل ہیں ۔نئی حکومت آنے کے بعد انھوں نے اس سمت میں پالیسیوں میں تبدیلی کی امید کی۔ مسٹر سوری نے کہا کہ اس شعبے میں تربیت یافتہ کاری گروں کی کمی اور تحقیق و ترقیات کو نظر انداز کیا جانا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ اے سی ایم اے سوسائیٹی آف انڈین آٹوموبائل مینوفیکچررس اور قومی مہارت ترقیات بورڈ(این ایس ڈی سی) کے ساتھ مل کر تربیت یافتہ کاریگر تیار کر رہا ہے اس کے تحت ۲۰۲۰ تک ۲ کروڑ لوگوں کو تربیت دینے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ مسٹر سوری نے بتا یا کہ تحقیق اور ترقیات میں حکومت سے بھی تعاون کی اپیل کی گئی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس وقت ملک کی آٹو پارٹس کمپنیاں اس سمت میں صر ف ایک فیصد سرمایہ کاری کرتی ہیں۔ جب کہ جاپان اور جرمنی جیسے ممالک میں اس سمت میں ۳ سے ۵ فیصد خرچ کیا جاتا ہے۔