لاس اینجلس ٹائمز کا کہنا ہے کہ فوج اور پولیس کی نگرانی میں دوپہر کو ہی جلد ہی جمعہ طاہر کی آخری رسومات ادا کر دی گئیں
چین میں سنکیانگ صوبے کے شہر کاشغر میں ملک کی سب سے بڑی مسجد عیدگاہ کے امام کو مبینہ طور پر ہدف بنا کر قتل کیا گیا ہے۔
74 سالہ جمعہ طاہر کو بدھ کے روز ایک مسجد کے باہر مبینہ طور پر چاقو گھونپ کر ہلاک کیا گیا۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا ہے جب حال ہی میں اسی ضلعے یرکانٹ میں پولیس کے ساتھ تصادم میں درجنوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔
اب تک یہ واضح نہیں کہ جمعہ طاہر کو ہلاک کیوں کیا گیا۔ بیجنگ میں بی بی سی کے نامہ نگار دمیاں گرماٹیکاس کا کہنا ہے کہ جمعہ طاہر کا تعلق سنکیانگ کی مرکزی مسلم اقلیتی برادری اویغور سے تھا اور وہ علاقے میں چینی حکومت کی مرکزی پالیسیوں کے حامی تھے۔
ریڈیو فری ایشیا نے عیدگاہ کے قریب ایک غیر شناخت شدہ دکاندار کے حوالے سے بتایا کہ صبح اس نے خون سے لپٹی ایک لاش مسجد کے باہر دیکھی اور پولیس کو علاقہ کلیئر کرتے دیکھا۔ انھیں بتایا گیا تھا کہ ہلاک ہونے والا شخص جمعہ طاہر ہے۔
لاس اینجلس ٹائمز کا کہنا ہے کہ فوج اور پولیس کی نگرانی میں دوپہر کو جلد ہی جمعہ طاہر کی آخری رسومات ادا کر دی گئیں۔
پولیس نے فوری طور پر کاشغر کے علاقے سے چین کے دوسرے علاقوں تک آمد و رفت، انٹرنیٹ اور ٹیکسٹ میسجنگ کی سہولیات معطل کر دی تھیں تاہم یہ پابندیاں اب اٹھا لی گئی ہیں۔
عیدگاہ مسجد 600 سال پرانی مسجد ہے اور جمعہ طاہر کو اس کی امامت پر چین کی کمیونسٹ پارٹی نے تعینات کیا تھا۔
عیدگاہ مسجد 600 سال پرانی ہے
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جمعہ طاہر مسلم اقلیتی برادری اویغور میں پسند نہیں کیے جاتے تھے کیونکہ وہ مسجد میں تبلیغ کرتے ہوئے کمیونسٹ پارٹی کی پالیسیوں کی تعریف کرتے تھے۔
ہمارے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ وہ اس سرکاری موقف کی بھی تائید کرتے تھے جس میں سنکیانگ میں تشدد کی ذمہ داری اویغور برادری پر ڈالی جاتی ہے۔
چین میں اویغور افراد کی مسلح تحریک کے بارے میں خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ حال میں انھوں نے ریلوے سٹیشنوں سمیت متعدد عوامی مقامات پر حملے کیے ہیں۔
اویغور افراد زیادہ تر مسلمان ہیں اور خود کو وسطی ایشیا سے قریب تر تصور کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ انھیں ہان چینیوں کی سنکیانگ میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی پر بھی اعتراض ہے۔
دوسری جانب بیجنگ کا کہنا ہے کہ اویغور دہشت گرد علیحدگی کی پرتشدد تحریک چلا رہے ہیں۔