لکھنؤ۔ (بیورو)۔ اسمبلی ضمنی انتخابات کیلئے سماج وادی پارٹی نے امیدواروں کے اعلان کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ بی جے پی میں بھی امیدواروں کے ناموں پر غور و خوض ہو رہا ہے۔ کانگریس تنظیم میں بھی اس بات کی آہٹ ہے کہ رکن اسمبلی کے رکن پارلیمنٹ بن جانے سے خالی ہوئی نشستوں پر ضمنی انتخابات میں امیدوار کھڑے کئے جائیں لیکن اسمبلی میں دوسرے نمبر کی سب سے بڑی پارٹی بی ایس پی ضمنی انتخابات میں اپنے امیدوار کھڑے نہیں کرے گی۔ بی ایس پی رہنما مایاوتی خود اس بات کا اعلان کر چکی ہیں۔ ہاتھی کیلئے زبردست عقیدہ رکھنے والے زبردست ووٹ بینک
کے باوجود پارٹی کا ضمنی انتخابات کیلئے دلچسپی دکھانا سیاسی لوگوں کے درمیان چرچا کا موضوع بنا ہوا ہے۔ آخر بی ایس پی انتخابات کیوں نہیں لڑ رہی ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے تاریخی کامیابی حاصل کی۔ اترپردیش میں پارٹی نے ۸۰ نشستوں میں سے ۷۱ نشستیں حاصل کیں۔ باقی بچی ۹ نشستوں میں سے دو نشستیں اس کی معاون اپنا دل کو ملی۔ باقی ۷ سیٹیں دو کنبوں کے درمیان تقسیم ہوگئی۔ پانچ نشستیں ملائم سنگھ کے کنبے و دو نشستیں سونیا گاندھی کے کنبے کو ملیں۔
سماج وادی پارٹی کے نام پر پارٹی رہنما کے کنبہ کو ملی۔ پانچ نشستوں میں سے بھی دو نشستوں پر سماجوادی رہنما ملائم سنگھ یادو نے خود جیتی۔ انہوں نے اعظم گڑھ نشست اپنے پاس رکھی اور مین پوری نشست کو چھوڑ دیا۔ اس چھوڑ ی ہوئی نشست پر بھی ضمنی انتخابات ہونے ہیں ۔ بی جے پی کے خیمہ میں جو نشستیں آئیں ان میں سے دس پر اس کے رکن اسمبلی جیتے اور ایک پر اس کی معاون اپنا دل کی رکن اسمبلی انوپریا پٹیل جیتیں۔ اس طرح ریاست میں ایک لوک سبھا نشست اور بارہ اسمبلی نشستوں پر ضمنی انتخابات ہونا ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے سارا داؤں نریندر مودی پر لگایا تھا وہ پارٹی کے وزیر اعظم کے امیدوار تھے۔ اس جیت کیلئے سارا ذمہ ان کی حکمت عملی کو دیا گیا اور کہا گیا کہ انہوں نے جو وعدے کئے اور اس پر عوام نے بھروسہ کیا۔ کیونکہ گجرات میں ان کے دور حکومت میں بہت ترقی ہوئی۔ ضمنی انتخابات میں ان کے اسی کرشمہ کا پھر امتحان ہوگا۔ کیا عوام کو ان کی کرشمائی شخصیت پر اب بھی بھروسہ ہے یا ریل بھاڑے میں ۵ء۱۴ فیصدی اضافہ اور پٹرولیم اشیاء کی قیمت میں اضافہ کے نظریہ سے عوام کا بھروسہ اٹھ رہا ہے۔ اس طرح بی جے پی کا اچھے دن کا وعدہ چلتا ہے اس کا بھی امتحان ہو جائے گا وہیں ریاست میں برسر اقتدار سماج وادی پارٹی کی جانب سے اچھا انتظامیہ، مساوات اور اچھا نظم و نسق کا داؤں پر لگا ہے ۔ بارہ حلقوںمیں ہونے والے ضمنی انتخابات میں کچھ نشستیں جیت کر دونوں ہی پارٹیاں ثابت کر سکتی ہیں کہ عوام ان کے ساتھ ہیں ۔
وہیں لوک سبھا بی ایس پی اور کانگریس دونوں کی حالت برابر ہے۔ کانگریس کو سونیا و راہل کی دو نشستیں ملیں تو بی ایس پی پوری طرح صاف ہو گئی۔ ان دونوں پارٹیوں کے پاس ضمنی انتخابات میں کھونے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے اور پانے کیلئے لوک سبھا کی ایک اور اسمبلی کی بارہ سیٹیں ہیں۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ بی ایس پی کے انتخابات نہ لڑنے کی وجہ کیا ہے۔
دلت ووٹ بینک اب مایاوتی کے ساتھ ہے یہ ثابت کرنے کاموقع بی ایس پی کیوں چھوڑ رہی ہے۔ اس ضمنی انتخابات میں اسمبلی کی جو نشستیں داؤں پر لگی ہیں وہ ساری کی ساری بی جے پی کی ہیں روہنیا نشست کو چھوڑ کر ۔ روہنیا نشست اپنا دل کی انوپریا پٹیل نے جیتی تھی جو اب پارلیمانی رکن بن گئی ہیں۔ ایسے میں بی ایس پی کو چند نشستیں بھی مل جاتی ہیں تو ریاست میں س کا رتبہ ہی بڑھتا ہے۔ پارٹی کیڈر میں قیادت کو لیکر اس کا بھروسہ مزید بڑھتا ہے۔ پھر بی ایس پی ضمنی انتخابات کیوں نہیں لڑ رہی ہے۔