مسجد،مزارات کی مسماری اور مذہب کے نام پر قتل کی شدید مذمت
لکھنو ¿: عراق اور سیریا میں سرگرم دہشت گرد گروہ داعش(دولت اسلامیہ عراق و شام) کے خود ساختہ سربراہ و امیر المومنین ابو بکر البغادادی کو خط لکھنے والے ممتاز عالم دین اور ندوة العلما ءکے استاذ سید سلمان الحسینی الندوی نے اپنے پہلے موقف سے انحراف کیا ہے۔ انہوں نے فیس بک پر اپنے پیج میں وضاحت شائع کی ہے جس کی رو سے انہوں نے واضح کیا ہے کہ داعش نے میری امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔داعش سے انسانی بنیادوں پر جو مطالبات ہم نے کیئے تھے وہ پورے نہیں ہوئے، بلکہ داعش کی بعد کی کارروائیوں نے تمام امیدوںکو ختم کردیا ہے۔مولانا سلمان ندوی نے مزید لکھا کہ ان حقائق کے سامنے آنے کے بعد میں تمام مسلمانوں کو مطلع کرتا ہوں کہ ”داعش“ کے نعروں سے دھوکہ نہ کھائیں،اور جب تک وہ عدل و انصاف اور اسلام کی وسیع النظری کا ثبوت نہ دیں،ان سے متاثر نہ ہوں۔
مولانا سلمان ندوی نے گزشتہ مہینے داعش کے سربراہ ابو بکر البغدادی کو عربی زبان میں دو صفحات کا ایک خط لکھا تھا جس میں انہوں نے خود ساختہ امیر المومنین کی مدح سرائی کی تھی اور امید ظاہر کی تھی کہ وہ عدل و انصاف سے دنیا کو بھر دیں گے۔اس خط کے بعد سے سماج میں کھل بلی مچی اور خود مسلمانوں کی اکثریت نے ناراضگی ظاہر کی اور کہا مولانا نے ایک دہشت گرد گروہ کی نہ صرف حمایت کی ہے بلکہ اسکے سربراہ کو خط لکھ کر ہندوستان کی سالمیت کےلئے خطرہ بن رہے داعش کی حرکتوں کو بھی تسلیم کیا ہے۔یاد رہے داعش نے اپنی حکومت کا جو نقشہ جاری کیا اس میں ہندوستان کا گجرات اور باقی کچھ حصہ بھی شامل کر لیا ہے۔
سماج میں ہر طرف سے تنقید کا نشانہ بن رہے مولانا سلمان ندوی نے اپنے سابقہ خط کے بارے میں اب وضاحت کی ہے حالانکہ انہوں نے اس صفائی میں بھی داعش کی پہلے انجام دی گئی حرکتوں کو تسلیم کیا ہے انہوں نے لکھا ہے کہ ’ تمام مسلمانوں کو مطلع کیا جاتا ہے کہ سیریا اور عراق کے ظالم و جابر حکمرانوں کے خلاف جو عوامی مسلح تحریک چل رہی ہے، اس میں جناب ابو بکر البغدادی کی تحریک ”داعش“ نے شام کے متعدد علاقوں کے بعد عراق کے شہر موصل اور دیگر شہروں کو نوری المالکی جیسے جابر اور مجرم کے قبضے سے آزاد کرا کر جو نام روشن کیا تھا، اس کی بنیاد پر میں نے ایک کھلے خط میں بغدادی صاحب سے مطالبہ کیا تھا کہ آپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ امن قائم کریں،انصاف کریں،مفتوحہ علاقوں میں عفو عام سے کام لیں اور شیعہ و سنی فرقہ واریت کو دفن کردیں۔مولانا نے مزید لکھا کہ بہرحال حالات پر میری نگاہ رہی اور مجھے افسوس ہے کہ امن ،عدل و انصاف، اور شیعہ و سنی بھائی چارہ کی دعوت کو اُلٹے معنی پہنا کر امن کو نقصان پہونچانے کی سازش رچی جا رہی ہے۔
مولانا سلمان ندوی نے چار نکات پر زور دیتے ہوئے لکھا ہے کہ داعش کی بعد کی کارروائیوں نے تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا جنمیں ،۱۔ مذہب و مسلک کی بنیاد پر قتل کی کارروائیاں۔۲۔دیگر اسلامی تنظیموں اور تحریکوں کے بارے میں غالیانہ اور متشددانہ موقف، اور ان کی تکفیر، اور ارتداد کی باتیں، بالخصوص جبہة النصرہ اور اخوان المسلمون کے بارے میں بے انتہا متشددانہ رائے۔
۳۔ موصل کے عیسائیوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک،جبکہ بیت المقدس کی فتح کے بعد صرف عیسائیوں کا گرجا گھر باقی رکھا،بلکہ نماز بھی اسکے باہر پڑھی گئی تاکہ لوگ اسے زبردستی مسجد نہ بنا لیں۔مصر کی فتح کے بعد وہاں اھرامات جن کے اندر فرعونیوں کی قبریں ہیں اور اس علاقے کی دیگر مورتیوں کو نہیں توڑا۔جب افغانستان کو فتح کیا گیا تو بدھا کی مورتی کو نہیں توڑا گیا اقلیتوں کے ساتھ رحمدلانہ اور مشفقانہ معاملہ رکھا گیا۔جس کے نتیجہ میں پورا ملک داخل اسلام ہوگیا،اسلئے ’ داعش‘ کی کارروائیاں اسلامی نقطءنظر سے غلط ہیں اور اسلام کو بدنام کرنے کا ذریعہ ہیں۔
۴۔ اس سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ انہوں نے مساجد اور مزارات کی اصلاح کی جگہ،ان کو توڑنا اسلامی فعل سمجھا،یہ بھی درست نہیں ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے جزیرة العرب کے مشرکوں کے ساتھ’ امسرت ان اقتال الناس‘ والی بات فرمائی تھی،جس کا حکم سورہءبرات میں نازل ہوا تھا،اس لئے وہاں جو احکامات آپ نے دئے تھے وہ وہاں کے ساتھ مخصوص تھے،کیوں کہ جزیرة العرب کو ایک خصوصی حیثیت دی گئی تھی۔دیگر ممالک کی فتوحات میں صحابہ کرام نے ایسا نہیں کیا تھا۔ان کارراویوں سے داعش کی قیادت کی تنگ نظری،تشدد اور اسلام کی جھوٹی سلفی نمائندگی نظر آرہی ہے،جو اسلام اور عالم اسلام کے لئے مضر ہے۔
مولانا سلمان ندوی نے مزید لکھا کہ ان حقائق کے سامنے آنے کے بعد میں تمام مسلمانوں کو مطلع کرتا ہوں کہ ”داعش“ کے نعروں سے دھوکہ نہ کھائیں،اور جب تک وہ عدل و انصاف اور اسلام کی وسیع النظری کا ثبوت نہ دیں،ان سے متاثر نہ ہوں۔سلمان ندوی نے لکھنو ¿ کے ایک مشہور روزنامہ آگ پر الزام عاید کیا تھا کہ اس نے فرقہ واریت پھیلانے کی سازش رچی ہے جبکہ اخبار کا کہنا ہے کہ
روزنامہ نے انتہائی ایمانداری اور انسانیت دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے اور شیعہ و سنی اتحاد کے تعلق سے مسلسل اپنی ذمہ داریاں نبھائیں اور داعش کی حرکتوں پر سے بار بار پردہ اٹھا کر مسلمانوں کو بہکنے اور غلط راستہ نہ اختیار کرنے کی جو سعی کی اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ اخبار نے ہر حال میں مسلمانوں کے مابین اتحاد اور حقیقی اسلامی نظریات و افکار کی پاسداری کی اور انسانی اصولوں نیز نظریات کی بالا دستی قائم کرنے کا کام بحسن و خوبی انجام دیا۔ہم نے کسی مسلک و فرقہ کی آواز بننے کے بجائے اسلام ، انسانیت اور مسلمانوں کی بلند آواز بننے کو ترجیح دی۔