ایک زمانہ تھا اگر کسی کو TB کا عارضہ ہوا، تو سننے والوں نے جیسے موت کی خبر سنی، چند لمحوں کےلئے سہی خبر سننے والے کا چہرہ بھی اُتر جاتا تھا۔ ٹی بی کا مریض اچھوت سمجھا جاتا تھا اس کا بستر یا پلنگ گھر سے باہر برآمدے وغیرہ میں لگ جاتا تھا۔ ہم نے دیکھا ہے کہ اُس زمانے میں یہ مرض ایک وبا کی شکل اختیا ر کرگیا تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے طبی ماہرین نے اس مرضِ جان لیوا پر قابو پالیا ہے۔ اب شاذ و نادر ہی ٹی بی کا کوئی شکار ہوتا ہے اکثر ابتدا ہی میں یہ مرض شناخت کر لیا جاتا ہے
اورعلاج و معالجے سے اس کو بہرحال قابو میں کر لیا جاتا ہے۔
اسوقت ہم دیکھ رہے ہیں کہ سرطان(کینسر) اور دل کے امراض بھی اسی طرح یعنی وباکی سی شکل اختیا ر کر رہے ہیں اور اس میں عمر کا بھی کوئی فرق نہیں ،کیا چھوٹے کیا بڑے یعنی کسی بھی عمر کا مرد ہو یا عورت ان عوارض کا شکار ہو رہا ہے۔ نہایت کم عمر بچے بھی دل کے مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ اس کی کیا وجوہ ہیں؟ یہ ایک طویل بحث کا موضوع ہے۔ اِدھر تھوڑی سی مدت میں ہمارے علم میں دو تین معاملات ایسے آئے ہیں کہ ہم سُن ہو کر رہ گئے۔ یہ ایک اتفاق ہی ہے کہ اِن مریضوں سے ہماری کوئی قربت بھی ہے۔ مگر مریض تو مریض ہوتا ہے انسانی رشتہ بہر حال معنی رکھتا ہے، بات صرف احساس کی ہے ، ہم بھی آدمی ہی ہیں لہٰذا کسی کا ایسے مرض میں مبتلا ہونا بسا اوقات لگتا ہے کہ’ ہم‘ ہی شکار ہوگئے ہیں۔ ہماری شعرا برادری کے ایک معروف شخص نسیم عزیزی جن کا تعلق ہاو ¿ڑہ( کولکاتا )سے ہے۔ وہ ممبئی میں اِدھر کئی ماہ سے اپنی آٹھ سالہ بیٹی کے علاج و معالجے کےلئے شہر میںمقیم ہیں۔ اس آٹھ سالہ بچی کو خون کا کینسر ہوگیا ہے۔ ٹاٹا کینسر ہسپتال میں مسلسل اس کو لے جایا جارہا ہے اکثر خون بھی اس کو چڑھایا جاتا ہے۔ بچی کے والد کوئی صاحبِ حیثیت آدمی نہیں ویسے بھی ہم شاعروں کی کیا حیثیت ہو سکتی ہے۔!! یہ حضرت ریلوے میں ملازمت کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں جب ان کی چھٹیاں بڑھنے لگیں تو ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے انھیں متنبہ کیا گیا ۔ موصوف نے یہاں مریض بیٹی کے پاس اس کی ماں کو چھوڑا اور دوڑتے ہوئے ہاو ¿ڑہ پہنچے اور حاضری درج کرائی۔ اللہ کے کرم سے اُنھیں پھر چھٹی مل گئی۔ دوسرے مریض ہمارے ہم عمر کمال الدین ہیں۔ منہ کے کینسر نے اُنھیں دبوچ رکھا ہے۔ آپریشن کیا گیا تو بیچارے گویائی سے محروم ہوگئے۔ وقتِ ضرورت اشاروں سے اپنی حاجت یا مدعا بیان کرتے ہیں۔علاج جاری ہے۔ ڈاکٹروں نے کچھ مثبت پیش گوئی بھی کر رکھی ہے۔ تیسرے مریض دورِ حاضر کے مشہور اُردو شاعر معراج فیض آبادی ہیں، جو لکھنو ¿ میں خاصی مدت سے اسی مرضِ مہلک سے لڑ رہے ہیں۔ ان سے ہفتے عشرے میںاکثر فون پر بات ہوتی تھی۔ گزشتہ منگل کو ہم جب عیادت کی غرض سے اُنکے دولتخانے(لکھنو ¿) پہنچے اور جب اُن کو دیکھا تو چند لمحے کےلئے لب ہی نہیں آنکھیں بھی چُپ ہو کر رہ گئیں۔ ہماری اِس خموشی کو اُنہوں نے بھی تاڑ لیا اور کہنے لگے کہ ” میاں ندیم! مجھے نہ دیکھو، اب تو میں نے بھی اپنی جانب دیکھنا چھوڑ دِیا ہے۔“ یہ سُن کر آنکھیں تھیں کہ چھلک پڑتیں مگر اسی وقت کسی کا یہ مصرعہ یاد آگیا بلکہ یاد کیا آیا ہم پر طاری ہوگیا : ”مجھے بھی آتا ہے احساس کو سزا دینا۔“ معراج فیض آبادی دُنیا بھر کی شہرت رکھتے ہیں۔ وہ مشاعروں میں کہاں نہیں بلوائے گئے اور لوگوں نے اُنھیں کہاں کہاں نہیں نوازا۔ اب وہ اپنے گھر کے ایک کمرے میں خموش پڑے ہوئے ہیں ان دِنوںاگر ان کا کوئی رفیق ہے تو وہ موبائیل (0945024720) ہے۔ مگر ہر وقت اورمسلسل موبائیل پر تو بات نہیں کی جاسکتی۔ ہم سوچتے رہے کہ اُن کا وقت کیسے کٹتا ہوگا؟ ہماری نظریں ان کے چہرے پر تھیں اور محسوس ہوا کہ وہ اپنا یہ شعر پڑھ رہے ہیں:
مجھ میں اِک بزم ہمہ وقت سجی رہتی ہے٪ اور صدیوں کی سسکتی ہوئی تنہائی بھی مَیں
اس شعر نے اُس وقت بھی دِل کو ہلادیا تھا اور اِس وقت بھی اسی کیفیت سے دوچار ہوں۔شکر ربی کہ ان کے لائق بیٹے اور ہماری صالحہ بھابھی لمحہ لمحہ ان کا خیال رکھے ہوئے ہیں۔ مگر بقول مولانا انجم فوقی بدایونی:
اے گردِ سفر آ تجھے آنکھوں سے لگا لوں٪ سایہ بھی رہے ساتھ پَہ چلنا تو مجھے ہے
بھائی معراج فیض آبادی سے رخصت ہوکر ہم ممبئی لوٹ آئے مگر اُن کا وہ جملہ ذہن میں اب بھی گونج رہا ہے:مجھے نہ دیکھو، اب تو میں نے بھی اپنی جانب دیکھنا چھوڑ دِیا ہے۔“ انسان بہت ہی کمزور اور اسے اپنے کل کلاں کی ہرگز خبر نہیں ۔ یہ مرضِ جان لیوا نہ جانے کب کس کا ہاتھ پکڑ لے۔ یہ وقت اپنے آپ میں رہنے کا اور اللہ سے پناہ مانگنے کاہے۔ اللہ ان تمام مریضوں کے ساتھ رحم وکرم کا معاملہ کرے۔ ہم یہی دُعا کر رہے ہیں اور اپنے پڑھنے والوں سے بھی اسی دُعا کے ملتجی ہیں۔ (ندیم صدیقی بمبئی کے سینئر صحافی ہیں )