سماج اور خصوصی طور سے مسلم سماج میں ایک انجانہ خوف کیا ملک و اور کسی قوم کی پیش قدمی میں رکاؤٹ بن رہا ہے؟ ہزاروں سوال اور جوابات تلاش کرنے کی ہماری جستجو کیا اس خیال کو یقینی بنا دے گی کہ ہم سب کچھ ہوتے ہوئے بی کسی ایک قوم اور کسی ایک نسل کو آگے بڑھتے کیوں نہیں دیکھ پا رہے ہیں اگر بڑھ بھی رہے ہیں تو ہماری رفتار کیا ہے۔
سماج کی ان گنت گتھیوں کو سلجھانے کے بجائے ہم کیا خود ایک گتھی بن کر رہ گئے ہیں؟ کیا ہمارا تعلیم یافتہ اور جوش و ولولہ سے لبریز نوجوان طبقہ تمام سہولتوں کے باوجود خوفزدگی اور محرومی کا شکار ہے؟کیا انکا ٹیلنٹ کسی اور سے کم ہے؟ کیا انکے بھرے پڑے ٹیلنٹ کو ہم استعمال کر پا رہے ہیں؟اقلیتی سماج کا سارا وقت خود کو دفاعی موڈ اور انکے پیش نظر حالات سے مقابلہ azadiکرنے کےلئے صرف ہوجاتا ہے؟ انکی آبادیاں، دشواریوں کی محور بن چکی ہیں؟ کیا سیاسی پارٹیوں نے اس سمت کوئی ٹھوس قدم اٹھایا ہے؟
اقلیتی فرقہ کی پریشانیاں؛؛؛؛ ہندوستانی سماج میں سب سے زیادہ محرومی کا شکار اقلیتی فرقہ ہے۔غداری کا کلنک، جہالت کا لقب اور سہولتوں میں تعصبات کی آمیزش کسی صحت مند معاشرے کےلئے ناسور ہے۔مگر ساٹھ سال سے زیادہ عمر کے جمہوری نطام میں اب تک یہ فرقہ خود کو یک و تنہا کیوں محسوس کرتا ہے؟تعلیم کے بعد ملازمتوں اور مواقع میں طرح طرح کے تعصبات انکا مقدر بن چکے ہیں۔ سیاسی تانے بانوں میں بھی انکو صرف ایک ووٹ بینک میں جکڑ لیا گیا ہے۔کمیشنوں اور کمیٹیوں کی تھاکانے والی کارروائیوں کے بیچ سے بر وقت انصاف کہیں نکل کر گُم ہوجاتا ہے۔کچہریوں، عدالتوں اور عدل و انصاف کے فرسودہ نظام ہم کو بے یقینی اور بے اعتمادی دیتے ہیں؟
کتابوں میں لکھے سماج کے ارفعی و اعلی اصولوں کواس طبقہ کی دسترس سے کیوں دور رکھا گیا ہے؟ کیا اس سماج کی قیادت اسکی زمہ دار ہے؟ کیا اس طبقہ کے ذمہ دار اپنی کوتاہیوں اور سرکار کی پالیسیوں سے روشناس کرانے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں؟کیا علم و آگہی کے اس دور میں ہم ان راستوں پر خود نہیں چل پا رہے ہیں جو ہمارا انتطار کر رہے ہیں؟
کوئی بھی ملک یا کوئی بھی صوبہ اس وقت تک خوشحالی سے ہمکنار نہیں ہوسکتا جب تک اسکی تعلیمی اور اقتصادی بنیادوں کو مستحکم نہ کیا جائے۔ ملک کو درپیش لا تعداد مسائل میں ہم یعنی محروم ہندوستانی کہیں نہ کہیں کھو گئے ہیں ۔ہمارے مسائل نہیں بلکہ ہم خود ایک مسئلہ بنن گئے ہیں ۔دوسرے ملک ہماری ڈانواں ڈول پالیسیوں، بر وقت کارروائیوں کے فقدان اور بد عنوانیوں کے لا تعداد واقعات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ہم بڑی جمہوریت ہونے کے باوجود کیا کمزور نظام کی قیادت کر رہے ہیں؟ملک بالخصوص صوبہ اتر پردیش کو بہت سے مسائل در پیش ہیں۔سیاسی پارٹیاں ہم کو دلفریب نعروں اور پر خواب وعدوں سے اپنا الو تو سادھ لیتی ہیں مگر نہ ملک کا فائدہ ہوتا ہے اور نہ ہی اسکے باشندوں کا۔ سیاسی سرکس میں ہمارا رول کیا صرف جوکروں کا جیسا ہو گیا ہے۔لیکن یہاں بھی ہم ہنساتے نہیں بلکہ ہم پر سب ہنستے ہیں۔ہم کیا کریں اور کیا نہ کریں یہ ایک بڑا سوال ہمارا پیچھا کر رہا ہے۔