لکھنؤ۔ (نامہ نگار)۔ اترپردیش کے امیٹھی ضلع میں رہنے والی ایک لڑکی نے ایک آشرم میں یرغمال بناکر اجتماعی آبروریزی کئے جانے کا سنگین الزام عائد کیا ہے۔ وہیں اس معاملہ میں متاثرہ کنبہ نے امیٹھی پولیس پر آشرم کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
امیٹھی کے موہن گنج علاقہ میں رہنے والے ایک کسان کی بیٹی گزشتہ اکیس جولائی کو لاپتہ ہو گئی تھی۔ اس معاملہ میں موہن گنج تھانہ میں اس کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی گئی تھی۔ گزشتہ ۲۷؍جولائی کو لڑکی کے ایک رشتہ دار نے لڑکی کو یرغمال بنائے آشرم میں دیکھا۔ اس بات کی اطلاع اس نے لڑکی کے کنبہ والوں کو دی۔ لڑکی کے کنبہ والے گاؤں والوں کے ساتھ آشرم پہنچ گئے۔ موقع پر پہنچی پولیس نے ان لوگوں کو تھانے بھیج دیا اور پھر لڑکی کو لیکر تھانے آگئے۔اس کے بعد پولیس نے لڑکی کو کنبہ والوں سے ملنے نہیں دیا۔ یکم اگست کو پولیس نے لڑکی کا عدالت میں بیان درج کرایا اور پھر اس کو کنبہ والوں کے سپرد کر دیا۔ کنبہ کے لوگوں نے بتایا کہ لڑکی کا کہنا ہے کہ گزشتہ اکیس جولائی کی رات گاؤں پردھان راجو مشرا ، دیپک، انکت، رامو اور اروند نے اس کو اغوا کیا اور پھر اس کو اپنی ہوس کا شکار بنایا۔ اس کے بعد وہ لوگ اس کو آشرم لیکر پہنچے اور آشرم میں چھوڑ کر چلے گئے۔ آشرم کے لو
گوں نے بھی اس کی آبروریزی کی۔ لڑکی کی پوری بات سننے کے بعد گھر والے دو اگست کو موہن گنج تھانے پہنچے اور اس معاملہ میں شکایت درج کرانے کی بات کہی۔ پولیس نے متاثرہ کنبہ کی رپورٹ درج کرنے سے انکار کر دیا۔ متاثرہ کنبہ اس کے بعد ایس پی امیٹھی کے پاس پہنچا اور ان کو بھی پوری بات بتائی۔ کنبہ کا الزام ہے کہ ایس پی امیٹھی نے بھی ان کو وہاں سے بھگا دیا۔ اس کے بعد کنبہ کے لوگوںنے ایس آر میگھا سیوا سنستھان نام کی ایک این جی او کی پناہ لی۔ این جی او کے لوگ جب اس کو لیکر لکھنؤ پہنچے اور پریس کلب میں اپنے ساتھ ہوئی واردات کی اطلاع دی۔ متاثرہ کنبہ نے اس معاملہ میں ایف آئی آر درج کرانے ، متاثرہ لڑکی کی لکھنؤمیں طبی جانچ کرانے اور اس پورے معاملہ کی سی بی آئی جانچ کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ متاثرہ کنبہ نے اس معاملہ میں صدر جمہوریہ، چیف جسٹس آف انڈیا، مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ ، مرکزی وزیر انسانی وسائل اسمرتی ایرانی ، گورنر، وزیر اعلیٰ ، پرنسپل سکریٹری داخلہ اور خواتین کمیشن کو خط بھیجا ہے۔