نئی دہلی، 14 اگست (یو این آئی) 27 برس قبل میرٹھ کے ہاشم پورہ محلے سے جن تقریباً پچاس مسلم نوجوانوں کو ریاست اترپردیش کی پولیس اور پی اے سی نے گرفتار کرکے بعد مبینہ طور پر قتل کردیا تھا ، اس معاملے کی حتمی سماعت بدھ کو دہلی کی تیس ہزاری ضلع عدالت میں شروع ہوگئی ہے۔واضح رہے کہ مئی 1987 میں میرٹھ شہر میں ہوئے خوفناک فرقہ وارانہ فسادات کے دوران 22مئی کو جمعہ کی نماز کے بعد ہاشم پورہ اور کچھ دیگر مسلم محلوں سے فوج نے 644لوگوں کو گرفتار کیا تھا جن میں سے ڈیڑھ سو ہاشم پورہ کے رہنے والے تھے۔ فوج نے ان لوگوں کو یو پی کی پرویژنل آرمڈ کانسٹیبلری (پی اے سی) کے حوالے کردیا تھا۔ ان میں سے پچاس لوگوں کو، جو زیادہ تر نوجوان تھے، ایک ٹرک کے ذریعہ مراد نگر لے جایا گیا جہاں گنگ نہر کے ساحل پر مبینہ طور پر انہیں گولیاں مار کر قتل کردیا گیا اور ان کی لاشوں کو نہر میں بہادیا گیا تھا ۔ جبکہ ان میں سے کچھ لوگوں کو غازی آباد کے نزدیک ہنڈن ندی
کے ساحل پر لے جاکر قتل کردیا گیا تھا۔ رونگٹے کھڑے کردینے والے اس واقعہ کی رپورٹ غازی آباد کے اس وقت کے پولیس کپتان بھبوتی نارائن نے درج کرائی تھی اور اس بناء پر یو پی پی اے سی کے 19 جوانوں کے خلاف ریاستی حکومت کی جانب سے مقدمہ درج کرایا گیا تھا،ج ن میں سے تین پولیس اہلکاروں کی موت ہوچکی ہے اور باقی بچے 16 جوان ضمانت پر ہیں اور اپنی ڈیوٹی پر تعینات ہیں۔
سال 2002 میں ہاشم پورہ قتل عام میں مار ے گئے افراد کے لواحقین کی درخواست پر یہ مقدمہ ریاست اترپردیش سے منتقل کرکے دہلی کی تیس ہزاری عدالت میں سماعت کے لئے بھیجا گیا تھا۔ پی اے سی کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچ جانے والے پانچ نوجوانوں کو استغاثہ کی طرف سے اس مقدمے میں گواہ بنایا گیا ہے۔ تیس ہزاری عدالت کے ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں یہ معاملہ زیرسماعت ہے اور اب اس میں حتمی کارروائی شروع ہوچکی ہے۔ استغاثہ کی طرف سے جرح مکمل ہوجانے کے بعد ملزمین کی طرف سے وکیل دفاع کو ایک موقع اور دیا جائے گا۔ تاکہ وہ اپنے موکلوں پر لگائے گے الزامات کا جواب دے سکیں ۔ اس کے بعد عدالت اس معاملے میں اپنا فیصلہ سنائے گی۔ اس قتل عام میں ہاشم پورہ کے جن پچاس مسلم نوجوانوں کو بہیمانہ طریقے سے قتل کردیا گیا تھا ان لواحقین گزشتہ 27 برسوں سے انصاف ملنے امید لگائے ہوئے ہیں۔