سیاحت ہندوستان کی مجموعی پیداوار میں تقریبا سات فیصد کا تعاون کرتا ہے اور اتنا ہی بھارت کے انفارمیشن ٹکنالوجی شعبے سے آتا ہے
بھارت میں سیاحت آسان نہیں ہے، سڑکیں پرشور اور بے ترتیب ہیں، سہولیات کا فقدان ہے، لیکن پھر بھی بہت سے لوگ ہندوستان کے اسی رنگ اور متنوع ثقافت کو دیکھنے کے لیے یہاں کا رخ کرتے ہیں۔
بھارتی دارالحکومت دہلی ہی میں عالمی تنظیم یونیسکو کی فہرست میں مغل بادشاہ ہمایوں کا مقبرہ، قطب م
ینار اور لال قلعے کی شکل میں تین عالمی تاریخی یادگاریں ہیں اس لیے یہاں آنے والے بہت سے سیاحوں کے لیے یہ پہلا پڑاؤ ہوتا ہے۔
لیکن حالیہ برسوں میں بھارت اور بطور خاص دہلی کی شبیہ کو دھچکہ لگا ہے۔
دوسال قبل ایک چلتی ہوئی بس میں ایک طالبہ کا ریپ اور اس کی موت پر ملک گیر پیمانے پر مظاہرے ہوئے تھے۔ اس واقعے کو عالمی سطح پر شہ سرخیوں میں جگہ ملی تھی جس سے دنیا یہ پیغام پہنچا تھا کہ بھارت اور بطور خاص دہلی خواتین کے لیے محفوظ نہیں ہے۔
اس کے بعد سے دہلی کی ان تاریخی عمارتوں کا انتظام و انصرام رکھنے والی آثار قدیمہ کی تنظیم آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (آے ایس آئی) کے مطابق بیرون سے آنے والوں سیاحوں کے ٹکٹوں کی فروخت میں زبردست کمی آئی ہے۔
اے ایس آئی دہلی کی تاریخی وراثت کے فروغ کے لیے کوشاں ہے جبکہ حکومت دارالحکومت کو ہی آئندہ سال عالمی وراثت قرار دیے جانے کے لیے زور لگا رہی ہے۔
جرمنی کی سکول ٹیچر کورنیلیا نیسیئر کا کہنا ہے کہ وہ ہندوستان آنا ترک نہیں کر سکتیں
یونیسکو کی جانب سے اس قسم کے کسی اعلان سے سیاحت کے شعبے میں مزید سرمایہ کاری کی امید ہے۔
اے ایس آئی سکیورٹی میں بھی اضافہ کر رہی ہے تاکہ خواتین سیاح خود کو محفوظ محسوس کر سکیں۔
اے ایس آئی دہلی میں آثار قدیمہ کے سپرنٹینڈنٹ وسنٹ کمار سورنکر نے کہا: ’ہم نے سکیورٹی کے لیے تاریخی عمارتوں میں پرائیویٹ سکیورٹی گارڈز رکھے ہیں جو نہ صرف بھیڑ پر کنٹرول رکھیں گے بلکہ بیرون ممالک سے آنے والے سیاحوں کو حفاظت کے متعلق معلومات بھی فراہم کریں گے۔‘
انھوں نے کہا: ’میرے خیال میں سکیورٹی میں کمی نہیں ہے تاہم ہم عالمی ثقافتی مقامات پر سی سی ٹی وی کیمرہ نصب کر رہے ہیں۔‘
سکیورٹی خدشات کے باوجود جرمنی کی ایک سکول ٹیچر کورنیلیا نیسیئر کا کہنا ہے کہ وہ ہندوستان آنا ترک نہیں کر سکتیں۔ وہ اس بار مبینہ ’سوپر مون‘ کے موقعے پر آگرہ میں تاج محل دیکھنے لیے آئیں تھیں۔
یہ ان کا ہندوستان کا چوتھا دورہ تھا اور وہ یہاں آنا ترک نہیں کر سکتیں۔ انھوں نے کہا: ’میں ذرا محتاط رہتی ہوں اور مشتبہ علاقوں سے دور اور لوگوں کے درمیان رہنے کی کوشش کرتی ہوں۔
ٹرپ ایڈوائزر کے مینیجر نکھل گنجو کا کہنا ہے کہ خواتین سیاحوں کی وہی شکایتیں ہیں جو عام طور پر تمام سیاحوں کو ہوتی ہیں
’میں ایسے مناسب کپڑے پہنتی ہوں جس سے لوگوں کو حیرت نہ ہو۔ اور پھر میں یہاں لوگوں کو بہت ملنسار اور مدد کرنے والا پاتی ہوں۔‘
اور یہی وہ شبیہ ہے جسے بھارت حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ نہ صرف وہ دنیا میں نہ صرف اپنا وقار بلکہ معیشت کو بھی بہتر بنا سکے۔
سیاحت ہندوستان کی مجموعی پیداوار میں تقریباً سات فیصد کا حصہ فراہم کرتی ہے۔ لگ بھگ اتنا ہی حصہ بھارت کی انفارمیشن ٹیکنالوجی شعبے سے آتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ شعبہ تقریباً دس کروڑ لوگوں کو روزگار بھی فراہم کرتا ہے۔
لیکن سرکاری اعداد و شمار کے اعتبار سے گذشتہ سال 70 لاکھ سے بھی کم بیرونی سیاح بھارت آئے جبکہ بینکاک اور لندن جیسے شہروں میں اس سے دوگنی تعداد میں سیاح آئے۔
سرکاری اعدادوشمار کے اعتبار سے گذشتہ سال 70 لاکھ سے بھی کم بیرونی سیاح بھارت آئے
یہاں آنے والوں کے لیے شمال میں دریائے جمنا پر موجود تاج محل سے لے کر جنوب میں گوکرنا ساحل تک متبادلوں کی کمی نہیں لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس شعبے کو دلکش اور پرکشش بنانے کے لیے زیادہ سرمایہ کاری نہیں کی جا رہی۔
ایک ٹریول سائٹ ٹرپ ایڈوائزر نے خاتون سیاحوں پر مبنی ایک سروے کرایا تھا جس میں 95 فی صد خواتین نے کہا تھا کہ دہلی بھارت میں خواتین کے لیے سب سے غیر محفوظ جگہ ہے۔
ٹرپ ایڈوائزر کے مینیجر نکھل گنجو نے کہا: ’خواتین سیاحوں کی وہی شکایتیں ہیں جو عام طور پر تمام سیاحوں کو ہوتی ہیں۔ یعنی بھارت کا ویزا حاصل کرنا آسان نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’کسی سیاح کے لیے اگر پہلا ہی تجربہ ایسا ہو تو پھر آپ تصور کر سکتے ہیں کہ پورے سفر کے بارے میں وہ ان کے تاثرات کیا ہوں گے۔‘
شمال میں جمنا ندی پر موجود تاج محل سے لے کر جنوب میں گوکرنا ساحل تک بھارت میں سیاحوں کے لیے متبادل کی کمی نہیں
ان کے مطابق: ’یہاں بنیادی ڈھانچے کا واضح مسئلہ ہے۔ کسی ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانا آسان نہیں اور یہاں اچھے ہوٹلوں کی کمی ہے۔‘
اس ضمن میں بھارت نے ملک کی شبیہ کو بہتر بنانے کے لیے بعض اقدامات کیے ہیں اور ایک منصوبے کا اعلان کیا ہے جس کے تحت 40 ممالک کے لوگوں کو یہاں آنے پر ویزا دیا جائے گا۔
وزارت سیاحت سپیشل پولیس فورس کے قیام کا منصوبہ رکھتی ہے لیکن اس خطے میں دوسرے ممالک سے مقابلے کے نتیجے میں سیاحوں کو بھارت کی جانب متوجہ کرنے میں بھارت کو مشکلات کا سامنا ہے۔