تہران“ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی کا کہنا ہے کہ ان کا ملک پابندیوں یا دھمکیوں سے مرعوب ہو کر اپنا ‘سر خم نہیں کرے گا’۔ اتوار کے روز ایک بیان میں حسن روحانی نے کہا کہ جوہری توانائی اور یورنیم افزودگی ایرانیوں کے مسلمہ حقوق ہیں۔ بقول مسٹر روحانی یہ دونوں امور ‘ریڈ لائن’ کا درجہ رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اقتصادی پابندیاں لگانے والے ملک بھی ان سے متاثر ہوتے ہیں، اس کا اثر صرف ایران پر ہی نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ تہران نے جنیوا میں گذشتہ تین دنوں سے جوہری معاملے پر جاری مذاکرات میں منطق اور ذہانت سے حصہ لیا ہے۔
درایں اثنا ایران کے جوہری پروگرام کے پرامن تصفیے کے لیے جنیوا میں چھ بڑی طاقتوں اور ایران کے درمیان ہونے والے تین روزہ مذاکرات بغیر کسی نتیجے کے اختتام پذیر ہو گئے ہیں۔ ایران نے بات چیت کو مثبت سمت میں اہم پیش رفت قرار دیا ہے، تاہم فریق ثانی میں شامل ممالک نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ مذاکرات کا اگلا مرحلہ بیس نومبر کو ہوگا۔
یورپی یونین کی خارجہ و سیکیورٹی پالیسی کی ہائی کمشنر کیتھرین آشٹن اور ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے جنیوا میں ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب میں مذاکرات کے ختم ہونے کا باضابطہ اعلان کیا۔ آشٹن کا کہنا تھا کہ 20 نومبر کو فریقین دوبارہ ملاقات کریں گے جبکہ ایرانی وزیر خارجہ نے مذاکرات کو مثبت پیش رفت قرار دیتے ہوئے توقع ظاہر کی کہ پیش آئند اجلاسوں میں فریقین کسی حتمی ڈیل تک پہنچنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
جنیوا بات چیت پر امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا ردعمل محتاط اور مایوس کن تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایران کے جوہری پروگرام کا معاملہ مفاہمت کے ذریعے حل کر رہے ہیں لیکن مفاہمت اور سفارت کاری کا باب غیرمعینہ مدت کے لیے کھلا نہیں رکھا جا سکے گا۔
انہوں نے توقع ظاہر کی گروپ چھے، ایران کے معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تو تنازعہ کا مثبت حل جلد نکالا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں ایران کو بھی تعاون کرنا ہو گا تب ہی ہم مشترکہ اہداف کے حصول تک پہنچ سکتے ہیں۔ جان کیری نے کہا کہ جنیوا مذاکرات میں قدرے پیش رفت بھی ہوئی ہے تاہم اسے فی الحال صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔
اجلاس میں شریک فرانسیسی وزیر خارجہ لوران فائبیوس نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “جنیوا بات چیت میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے لیکن ہم کسی معاہدے تک پہنچنے میں ناکام رہے ہیں۔ ڈیل میں ابھی بہت سی رکاوٹیں حائل ہیں انہیں دور کیا جانا ضروری ہے”۔ انہوں نے بھی سیکرٹریوں کی سطح پر بات چیت کا دوبارہ عندیہ دیا۔
ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی کی جانب سے جوہری تنازعہ پر جاری مذاکرات کے دوران ایک بیان سامنے آیا ہے۔ اس بیان میں انہوں نےعالمی مذاکرات کاروں پر زور دیا ہے کہ وہ جوہری تنازعہ سے متعلق تہران کے موقف کو سمجھیں اور مسئلے کا کئی مثبت حل نکالیں تاکہ دس سال سے جاری مذاکرات کی مشق کا خاتمہ کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا جوہری پروگرام سول مقاصد کے لیے ہے۔ اس کے کوئی فوجی مقاصد نہیں ہیں۔ تاہم مغربی ملکوں بالخصوص امریکا کا خیال ہے کہ ایران ایٹم بم تیار کرنے کے لیے یورنیم افزودہ کر رہا ہے۔
برطانوی وزیرخارجہ ولیم ہیگ نے بھی کہا ہے کہ ایران کے جوہری مسئلے پر ہونے والی بات چیت مثبت ضرور رہی ہے لیکن توقع کے مطابق نتائج سامنے نہیں آ سکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی حتمی معاہدے تک پہنچنے کے لیے ہمیں اس طرح کے مزید اجلاس منعقد کرنا ہوں گے۔