ریزرویشن میں شامل نہیں کئے جانے کی وجہ سے ان طبقات میں حکومت کے خلاف شدید غم و غصہ اور اِضطراب
ان سبھی طبقات کو ضابطہ اخلاق کے قبل ریزرویشن میں شامل کرنے کا مطالبہ
ممبئی:۔(ڈاکٹر محمد راغب دیشمکھ کی خصوصی رپورٹ)
گذشتہ مہینے مہاراشٹر میں مسلمانوں کو ۵؍فیصد ریزرویشن دئے جانے کا حال ہی میں اعلان کیا گیا ہے۔ مسلم ریزرویشن کا اعلان ہونے کے بعد اس سے فائدہ اٹھانے کیلئے مسلم کاسٹ سر ٹیفکیٹ بنوانے کا کام ریاست بھر میں جاری ہے۔
حکومت کی جانب سے جن ۵۰؍ سر نیم کی فہرست جاری کی گئی ہے۔ وہ تمام افراد ریزرویشن کے مستحق ہوں گے۔ ایک طرف جہاں اس فیصلے سے مسلمان خوش ہیں وہیں دوسری جانب مسلم دیشمکھ، دیش پانڈے، پانڈے ، بڑئے،کلکرنی، گراسے، بنارسے اور اسطرح کے دوسرے مسلم پسماندہ طبقات کے مسلمانوں کو شامل نا کئے جانے کی وجہ سے ان طبقات میںریاستی حکومت مہاراشٹر کے تیں کافی ناراضگی دیکھی جارہی ہے۔ ان کا کہنا ہے اقلیت کے وزیر عارف نسیم خان اس معاملہ میں کافی سرگرم ہے مگر ان کی بھی اسطرف بے توجہی ان طبقات میں کافی بے چینی کا باعث ثابت ہورہی ہے۔
جو سر نیم اس ریزرویشن میں شامل نہیں کئے گئے ہیں ان میں دیشمکھ، دیش پانڈے، پانڈے ، بڑئے،کلکرنی، گراسے، بنارسے، مہاراشٹر ریاست کے مختلف اضلاع میں کثیر تعداد میں موجود ہیں ان میں آکولہ، بلڈانہ، واشم، ایوت محل، امرائوتی، ناگپور، وردھا، اورنگ آباد، بیڑ، جالنہ، لاتور، عثمان آباد، جلگائوں، نندوربار، ناسک، دھولیہ ، پونہ، ممبئی، تھانہ، کوکن، ان اضلاع اور انکے ،مضافاتی علاقوں میں بھی اس سماج کی کم و بیش ایک لاکھ سے زیادہ آبادی موجود ہیں۔ ریاست میں عنقریب اسمبلی انتخابات ہونے جارہے ہیں ضابطہ اخلاق کے نفاذ سے قبل مسلم دیشمکھ، دیش پانڈے، پانڈے ، کلکرنی، گراسے، بنارسے، کے علاوہ دیگر پسماندہ طبقات کو ریزرویشن میں شامل کرنے کا مطالبہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ اور وہ ریاستی حکومت کی کانگریس پارٹی سے کافی خفا ہیں۔ اس معاملہ میں حکومت کے وزیر اعلیٰ اور اقلیت کے وزیر عارف نسیم خان کو چاہیے کے الیکشن سے قبل ریزرویشن کے فہرست سے چھوٹے مستحق طبقات کے ناموں کو شامل کرکے مسلمانوں کی ناراضگی کو جلد از جلد دور کیا جائے۔ اگر ان طبقات کو مسلم ریزرویشن میں شامل نہیں کیا گیا تو ہوسکتا ہے اس کا خمیازہ حکومت کو آئندہ ہونے والے ریاستی الیکشن میں اٹھانا پڑئے۔ ان طبقات نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ جلد از جلد قانون کے مطابق ان میں خصوصی ترمیم کرکے ریاست میں سماجی اور تعلیمی طور پر پچھڑے اس بنیاد پر تقریباً ۵۰؍ مسلم ذاتوں کو ریزرویشن میں شامل کیا ہے۔ اس کے ساتھ ان سبھی مذاہب کے افراد کے سرنیم کو شامل کیا جائے ۔ اسطرح کا مطالبہ ان طبقات کی جانب سے کیا جارہا ہے۔
اس بارے میں ڈاکٹر محمد طالب دیشمکھ (سرپنچ گرام پنچایت لوہارہ)ضلع آکولہ نے بتایا کی سرنیم کی فہرست میں غریب اور پسماندہ مسلم طبقات کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے ان طبقات میں حکومت کی تیٔں کافی غم و غصہ دیکھا جارہا ہے۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ جلد از جلد اس مسلئے کو حل کرکے ان کے سرنیم کی فہرست جاری کرے۔اور حکومت کی جانب بڑ رہے غم و غصہ کو ختم کیا جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ دیشمکھ، دیش پانڈے، پانڈے ، بڑئے،کلکرنی، گراسے، بنارسے کسی بھی او بی سی کاسٹ میں شامل نہیں ہے ۔
ریاست بھر کے مسلم دیشمکھ، دیش پانڈے، پانڈے ، بڑئے،کلکرنی، گراسے، بنارسے حکومت کے اس فیصلے سے ناخوش ہیں۔اور وہ حکومت سے سوال کر رہے ہیں کہ حکومت ان کے ساتھ اسطرح کا امتیازی سلوک کیوںکررہی ہے۔ البتہ دیکھنا یہ ہوگا کہ حکومت مہاراشٹر سے جو یہ لغزش ہوئی ہے وہ ضابطہ اخلاق سے قبل اس کی ترمیم کی جاتی ہے یا نہیں۔ اگر ضابطہ اخلاق سے قبل اس میں ترمیم نہیں کی گئی تو ریاستی حکومت کو اس کا خمیازہ بھوگتنا پڑئے گا۔ جوکہ موجودہ حکومت کیلئے نقصان دہ ثابت ہونگا۔