نئی دہلی۔سابق ہندوستانی بلے باز راہل ڈراوڑ نے ٹیم انڈیا کے سپورٹ اسٹاف میں کئے گئے تبدیلیوں کے وقت کو لے کر بے چینی ظاہر کی ہے لیکن ساتھ ہی ان کا خیال ہے کہ سابق کپتان روی شاستری اور کوچ ڈنکن فلیچر مل کر ٹیم کو مضبوطی دیں گے۔دراوڑ نے کہا کہ ان کے مطابق موجودہ انگلینڈ کے دورہ کے دوران ہی تبدیلی سے متعلق فریق متاثر ہو جاتے ہیں اس لئے ٹیم کے سپورٹ اسٹاف میں جو بھی تبدیلی کئے گئے ہیں اسے دورہ ختم کیے جانے کے بعد عمل میں لانا چاہئے تھا۔سابق کپتان روی شاستری کوڈائیرکٹربنائے جانے کو لیکردراوڑ نے کہا کہ تبدیلی کئے جانے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔انہوں نے کہا ٹیم میں کوئی تبدیلی ہوتی ہیں تو اس سے کسی کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتاہے۔یہ کھیل کا حصہ ہوتا ہے۔ سابق ٹسٹ بلے باز نے کہا
مجھے لگتا ہے کہ ڈنکن فلیچربہترین کوچ ہیں اور ان کی معلومات بہت اچھی ہے۔ہندوستانی ٹیم ان کا احترام کرتی ہے اور ان سے مشورہ لیتی ہے۔دھونی اور فلیچر کے درمیان بھی تعلقات اچھے ہیں۔مجھے یقین ہے کہ شاستری اور فلیچر مل کر اچھا کام کر سکیں گے۔ انہوں نے ساتھ ہی مانا کہ ابھی تک یہ بھی صاف نہیں ہے کہ جوتبدیلیاں کی گئی ہیں وہ طویل رہیں گی یا پھر موجودہ انگلینڈ کے دورے کے لیے ہی اسے عمل میں لایا گیا ہے۔ایسے میں کافی تضاد کی حالت بنی ہوئی ہے۔انگلینڈ کے خلاف ٹسٹ سیریز میں ہندوستان کی شکست جھیلنے کے بعد بولنگ کوچ جو داویس اور فیلڈنگ کوچ ٹریور پینی کو آرام دیا گیا اور ان کی جگہ پر سابق ہندوستانی کرکٹر سنجے بانگڑ۔سابق فاسٹ بولر ارون اور آر سریدھر کو شریک کوچ منتخب کر دیا گیا تھا۔ اگرچہ ان تبدیلیوں کے وقت کو لے کر سابق کپتان دراوڑزیادہ خوش نہیں ہیں۔انہوں نے کہا مجھے لگتا ہے کہ کھلاڑیوں کے لیے اس طرح کی تبدیلیوں کئی بار مشکل رہتی ہیں۔وہ سپورٹ اسٹاف کے ساتھ اچھا تال میل بنا چکے ہوتے ہیں۔لیکن شاید روی اس صورتحال کو سنبھال سکتے ہیں۔ موجودہ کوچ فلیچرکے کردار کو لے کر لگائی جا رہی قیاس آرائیوں کے درمیان دراوڑ نے کہا کہ فلیچر ایک اچھے کوچ ہیں اور کپتان مہندر سنگھ دھونی اور ٹیم کے ساتھ ان کے تعلقات بھی اچھے ہیں۔اگرچہ مستقبل میں فلیچر کو طے کرنا ہے کہ وہ اپنے کردار کو لے کر کیا فیصلہ لیتے ہیں۔ وہیںدوسری جانبہندوستان کی انگلینڈ کے خلاف پانچ ٹسٹ میچوں کی سیریز میں شرمناک شکست کا سب سے سخت حقیقت یہ بھی ہے کہ ہندوستانی ٹیم اس وقت آل رائونڈروں کی بھاری کمی سے دوچار رہی ہے اور پیر سے شروع ہونے جا رہی ون ڈے سیریز میں بھی اس کے لیے اس مسئلہ سے گزرنا چیلنج ہوگا۔ سال 1983 میں لارڈس میں ورلڈ کپ جیت کر تاریخ میں نام درج کرانے والی ہندوستانی ٹیم میں اس وقت چار آل راؤنڈر تھے جس کی بدولت ہندوستان جیت کی منزل تک پہنچا تھا۔ ورلڈ کپ فاتح اس ٹیم میں کپل دیو۔ روی شاستری۔ کیرتی آزاد اور مدن لال جیسے قدآور آل راؤنڈر تھے۔ آج ہندوستانی ٹیم کے پاس صحیح معنوں میں کوئی بھی آل رائونڈرنہیں ہے۔ انگلینڈ کے خلاف پیر سے شروع ہونے جا رہی ہندوستانی ٹیم کو دیکھیں تو اس میں روچندرن اشون۔ روندر جڈیجہ اور سریش رینا کی شکل میں تین آل راؤنڈر موجود ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ اس کے پاس صرف بلے باز اور گیند باز رہ گئے ہے۔اگرچہ اشون کا استعمال اہم طورسے ماہر آف اسپنرکے لیے ہی ہوتا ہے جبکہ روندر جڈیجہ بھی گیند بازی پر زور دے رہے ہیں۔انگلینڈ کے خلاف ٹسٹ سیریز میں اشون کو صرف دو میچوں میں ہی کھیلنے کا موقع ملا۔اشون کو بلے بازی میں آٹھویں نمبر پر کھلانے اور جڈیجہ کو ساتویں نمبر پر اتارنے سے ان کھلاڑیوں کے پاس رن بنانے کا بہت موقع نہیں رہتا ہے۔اشون نے دو ٹسٹ میچوں میں 35۔ 33 کے اوسط سے 106 رن بنائے اورتین وکٹ لئے جبکہ جڈیجہ نے چار میچوں میں 177 رن اور نو وکٹ لئے تھے۔ایسے میں موجودہ آل رائونڈروں کے بہتر استعمال سے ٹیم کو فائدہ مل سکتا ہے جبکہتیزگیندباز بھونیشور کمار نے نووے نمبر پر بلے بازی کر مسلسل نصف سنچری بنانے کا منفرد ریکارڈ بنایا جو ٹیم انڈیا کیلئے اچھے آل راؤنڈر ثابت ہو سکتے ہیں۔ ٹسٹ سیریز میں ہندوستان کی خراب کارکردگی کیلئے کپتان مہندر سنگھ دھونی کی جم کر تنقید کی گئی ہے لیکن بلے بازوں اور گیندبازوں نے اس سیریز میں انتہائی خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور اس کے لیے دھونی کو ملامت نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ ہندوستان کو غیر ملکی زمین پر ایک سیریز میں ملی اس ہار نے دھونی کی ساری حصولیابی کو پیچھے دھکیل دیا ہے اور گزشتہ برسوں میں ہندوستانی کرکٹ میںان کی شراکت کمزورپڑ گئی ہے۔یہاں تک کہ اس سیریز میں بھی دھونی میدان پر اکیلے ہی کھڑے نظر آئے باقی کے بلے باز سستے میں آؤٹ ہو کر چلتے بنے۔ ہندوستانی ٹیم کے نئے ڈائریکٹرروی شاستری کے پاس بھی اس شرمناک شکست کے بعد ہندوستانی ٹیم کے اعتماد کو لوٹانے کے لئے مزید اختیارات نہیں ہوں گے۔ ہندوستانی کرکٹ کنٹرول بورڈکے پاس اب ٹیم میں بڑے سطح پر مزید تبدیلی کرنے کا موقع بھی نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آسٹریلیا یا نیوزی لینڈ میں اگلے سال ہونے والے آئی سی سی ورلڈ کپ میں یہ ردوبدل ٹیم کو اور بھاری نہ پڑ جائے۔