مغربی افریقی وزرائے صحت ایبولا سے متاثر ملکوں پر حفظ ماتقدم کے طور پر عائد کی گئی سفری پابندیاں اٹھانے پر مت
فق ہو گئے ہیں۔ان کا یہ اتفاقِ رائے ایسے وقت سامنے آیا ہے جب عالمی ادارہ صحت نے اس جان لیوا وائرس کے بارے میں نئے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔مغربی افریقی ملکوں کے وزرائے صحت کا ایک اجلاس جمعرات کو گھانا میں منعقد ہوا۔ اس موقع پر انہوں نے متاثرہ ملکوں کی صورتِ حال پر غور کیا۔
وزراء نے اتفاق کیا کہ متاثرہ ملکوں پر عائد سفری پابندیاں اٹھا لی جانی چاہییں۔ خیال رہے کہ عالمی ادارہ صحت ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) بھی ان پابندیوں کو امدادی کارروائیوں کی راہ میں رکاوٹ قرار دے چکی ہے۔ڈبلیو ایچ او نے جمعرات کو یہ انتباہ بھی جاری کیا ہے کہ ایبولا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس ادارے کا کہنا ہے کہ اس وائرس میں مبتلا افراد کی تعداد چھ گنا بڑھ کر بیس ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے حکام کے مطابق اس وائرس پر قابو پانے کے لیے ہنگامی اقدامات کیے جا رہے اور سائنسدان اس مرض کا علاج ڈھونڈنے کے لیے دِن رات کوشش کر رہے ہیں۔ایبولا کم ازکم ایک ہزار پانچ سو پچاس افراد کی جان لے چکا ہے۔ایبولا وائرس کی وبا کے نتیجے میں اب تک کم ازکم ایک ہزار پانچ سو پچاس افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ تین ہزار سے زائد متاثر ہوئے ہیں۔خیال رہے کہ ایبولا لاعلاج ہے۔ تاہم ایک تجرباتی دوا ZMappسامنے آئی ہے جس کی محض پانچ خوراکیں ہی دستیاب تھیں جو چھ متاثرین کو دی گئی ہیں۔ ان میں سے دو امریکی طبی کارکن تھے جو صحت یاب ہو چکے ہیں، تین افریقی ڈاکٹروں کی حالت بہتر ہو رہی ہے جبکہ اسپین کے ایک مسیحی رہنما کی موت واقع ہو چکی ہے۔ڈبلیو ایچ او نے گزشتہ ہفتے ایبولا کی لاعلاج نوعیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس وائرس سے متاثرہ بعض لوگ گھروں پر مرنے کو ترجیح دے رہیں۔ لائبیریا اور سیرا لیون کو بالخصوص اس صورتِ حال کا سامنا ہے جہاں ایبولا متاثرین کے لیے کلنک کا ایک ٹیکہ بنا ہوا ہے اور معاشرہ انہیں ٹھکرا رہا ہے۔مغربی افریقہ میں بعض لوگ بدستور ایبولا کے وجود سے انکار کرتے ہیں جبکہ بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ مریضوں کو معاشرے سے علیحدہ رکھنے کے لیے بنائے گئے طبی مراکز اس وائرس کے پھیلاؤ کا ذریعہ ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایبولا سے متاثرہ ملکوں میں طبی عملے، سامان اور آلات کی کمی ہے۔ ہسپتال بھرے پڑے ہیں جبکہ تشخیص کی سہولتیں بھی کم پڑ رہی ہیں۔