گورکھپور۔ ۔ ساجد علی میموریل کمیٹی کے جلسہ میں یوم اردو کو یوم احتجاج کے طور پر منایا گیا۔اپنی صدارتی تقریر میں کمیٹی کے سرپرست محمد حامد علی نے کہا کہ ہم اردو کیلئے حکومت سے تو احتجاج کر رہے ہیں ساتھ ہی اردو والوں سے ہمیں شکوہ ہے جو زبان کے تحفظ میں اپنے فرائض کی انجام دہی میں مجرمانہ غفلت برت رہے ہیں۔وہ ناتو اپنے بچوں کو اردو کی تعلیم دلا رہے ہیں اور نہ ہی اپنی روز مرہ کی زندگی میں اس کا استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومتوں کی نیت صاف نہیں ہے جو اس زبان کے فروغ میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہی ہے۔
اب اردو والوں کو ہی اپنی زبان کی بقاء کیلئے جدو جہد کرنی ہوگی۔ کمیٹی کے سکریٹری محبوب سعید حارث نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اترپردیش کو نہ جانے کتنے خطوط لکھے گئے کہ اردو زبان سے متعلق اداروں کو فعال بنایا جائے لیکن اس جانب خاموشی اختیار کر لی گئی ہے نہ تو اردو اکیڈمی کی تشکیل نو ہوئی اور نہ ہی فخر الدین علی احمد کمیٹی بنائی گئی جس کی وجہ سے اردو کے شاعروں و ادیبوں کی کتابیں شائع نہیں ہو پا رہی ہیں اور نہ ہی شایع شدہ کتابوں پر انعام ہی دیا جا رہا ہے۔ اس پر بے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب ساجد علی میموریل کمیٹی یہ کام خود اپنے ہاتھوں میں لے گی اور منتخب کتابوں پر انعامات دینے کا سلسلہ شروع کرے گی۔ انہوں نے یہ بھی الزام لگایا گہ کتنی بار یونیورسٹیوں ، کالجوں اور اسکولوں میں اردو اساتذہ کی کمی کو پوری کرنے کیلئے مطالبہ کیا گیا لیکن نتیجہ صفر رہا۔ اس طرح اردو کو ختم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے اور اردو والے اس سے عافل ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اس کیلئے اب زبردست احتجاج کرنے کی ضرورت ہے۔ قاضی توسل حسین نے کہا کہ اگر اردو ختم کر دی گئی تو ہماری تہذیبی وراثت خطرہ میں پڑ جائے گی۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ اس زبان کو بچانے کیلئے جدو جہد کا راستہ اپنایا جائے۔ ضمیر احمد پیام نے کہا کہ ریڈیواور ٹی وی پروگراموں میں اردو کی حق تلفی کی جا رہی ہے۔ ادیبو ں اور شاعروں کو پروگرام نہیں کرنے دیئے جا رہے ہیں جس کیلئے مرکزی وزراء اور ذمہ داران سے شکایت بھی کی گئی لیکن ابھی تک اس جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے۔ انہوں نے بھی کہا کہ ہر طرف اردو کے ساتھ سوتیلا سلوک ہو رہا ہے۔ اردو اخبارات کو اشتہارات بھی بند کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ مرکزی وزیر نشریات کے اردو اخبارات کے تعلق سے پیش کردہ اعداد و شمار بھی گمراہ کن ہیں۔ رجسٹریشن شدہ اخبارات کی تعداد ۸۵۲۲ بنائی گئی ہے یہ بالکل غلط ہے۔ انجینئر شمس انور نے کہا کہ اردو والے اپنی زبان کے معاملہ میں فکرمند نہیں ہیں۔ انہیںیہ بھی نہیں معلوم کہ زبانوں کے ختم ہو جانے سے تہذیب نہیں مٹتی ہے۔ جلسہ میں حافظ عبدالرحمان، نظر مگہری، حاجی حمد احمد وغیرہ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔