دولت اسلامیہ اور سنی گروپوں کی طرف سے شمالی اور مغربی عراق کے بیشر علاقوں کو اپنے زیرِ کنٹرول لانے کے بعد ملک میں تشدد میں اضافہ ہوا ہے
عراق کے شمالی شہر امرلی کے محاصرے کو توڑتے ہوئے شیعہ اور کرد فورسز دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں کے خلاف پیش قدمی کر رہی ہیں۔
بی بی سی کی ایک ٹیم پیر کو امرلی میں داخل ہو گئی ہے جہاں اس نے دیکھا کہ یہاں کے باشندوں نے گذشتہ دو مہینے سے محاصرے کا سامنا کیسے کیا۔
دریں اثنا شیعہ اور کرد فورسز نے کارروائی کر کے دولتِ اسلامیہ کے مضبوط گڑھ سلیمان بیگ پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔
ادھر اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ وہ دولتِ اسلامیہ کے ہاتھوں ’بڑے پیمانے پر غیر انسانی اقدامات‘ کی تح
قیقات کے لیے عراق میں ایک ٹیم بھیج رہی ہے۔
دولت اسلامیہ اور سنی گروپوں کی طرف سے شمالی اور مغربی عراق کے بیشر علاقوں کو اپنے کنٹرول میں لانے کے بعد ملک میں تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔
پرتشدد کارروائیوں کے دوران ہزاروں افراد کو ہلاک کر دیا گیا ہے جبکہ لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔
“ہمارا دشمن پسپہ ہو رہا ہے جبکہ ہماری فوج رضا کاروں کی مدد سے مزید پیش قدمی کر رہی ہے۔”
نوری المالکی
امرلی کے رہائشیوں کو دولتِ اسلامیہ کے خلاف کھڑے ہونے پر قتلِ عام کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔
بی بی سی کے نامہ نگار گیبرئیل گیٹ ہاؤس جب پیر کو امرلی میں داخل ہوئے تو انھوں نے لوگوں کو اپنے خاندانوں کے ساتھ دوبارہ ملنے پر خوش و خرم پایا۔
ہمارے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ علاقے میں اب بھی بعض جگہوں پر دولتِ اسلامیہ کے جنگجو موجود ہیں جس کا مطلب ہے کہ اس قصبے تک آسانی سے رسائی ممکن نہیں۔
ملک کے سبک دوش ہونے والے وزیرِ اعظم نوری المالکی نے پیر کو امرلی کے دورے کے دوران کہا کہ عراق ’دولتِ اسلامیہ کا قبرستان بنے گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہمارا دشمن پسپا ہو رہا ہے جبکہ ہماری فوج رضا کاروں کی مدد سے مزید پیش قدمی کر رہی ہے۔‘
نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کرد اور عراقی فورسز کی پیش قدمی حالیہ مہینوں میں ان کی بڑی کامیابی ہے۔ ان ملیشیا کا کہنا ہے کہ ایران نے حالیہ آپریشنز میں اسلحہ فراہم کیا اور عسکری منصوبہ بندی کی۔
دولتِ اسلامیہ پر شام و عراق میں اپنے زیرِ کنٹرول علاقوں مظالم ڈھانے کے الزامات ہیں۔