لکھنؤ(نامہ نگار)امراض تپ دق(ٹی بی)میںہوئی نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ تپ دق کے ۷۰مریضوں میں ۲۰مریض دماغی ٹی بی(برین ٹی بی) سے متاثر ہیں۔ کنگ جارج میڈیکل یونیورسٹی کے نیورولوجی شعبہ میں چل رہی تحقیق (ریسرچ )میں یہ پتہ چلا کہ یہ مرض بڑوں میں ہی نہیں بچوںمیں بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔
نیورولوجی شعبہ میں بھرتی ہونے والے مریضوں میں دماغی ٹی بی کے مریضوں کی تعداد دس فیصد سے زیادہ ہے۔صدر شعبہ کے مطابق لکھنؤ اور کانپور میں اس مرض سے متاثر لوگ زیادہ ہیں ۔دماغی ٹی بی کے مریضوں کی بڑھتی تعداد کو دیکھتے ہوئے صدر شعبہ پروفیسر آر کے گرگ کی قیادت میں یہ پتہ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اس کیلئے ٹی بی بیکٹیریامائیکرو بیکٹیریم ٹیوبر کلوسس سے الگ اور قوم سے ایسے عناصر ذمہ دار ہیں جس کی وجہ سے یہ مرض پھیل رہا ہے۔ مرض کے
بارے میں تفصیلی معلومات کے بعد روک تھام کیلئے کلینکل ٹرائل کے طور پر دوائیں تیار کئے جانے کا منصوبہ ہے۔ ڈاکٹر بتاتے ہیں کہ ٹی بی کا انفکشن جسم کے کسی بھی عضو میں ہو سکتا ہے۔عام طور پر ٹی بی کا نام آتے ہی کھانسی اور بخار جیسی علامتیں ہی یاد آتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ مریض کے پھیپھڑوں میں انفکشن ہوگا۔ اب یہ نظریہ تبدیل ہو چکا ہے اورایسا دیکھا جارہا ہے کہ ٹی بی کا انفیکشن ایبڈومن، گردہ، اسپائن، دماغ یاجسم کے کسی بھی عضو کی ہڈی میں ٹی بی ہونا عام بات ہے۔
کیا ہے دماغی ٹی بی کی علامت؟
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ دماغی ٹی بی کے مرض میں درد، قے اورلقواء جیسی علامتیں دیکھنے ملتی ہیں۔ ڈاکٹر بتاتے ہیں کہ دماغی ٹی بی کا بیکٹیریا ہوا میں آلودگی کے ذریعہ ایک شخص سے دوسرے شخص میں پہنچتا ہے جو پھیپھڑوں میں پہنچ کر خون کے ذریعہ دماغ میں داخل ہوجاتاہے۔دماغ کے اندر کا پانی ریڑھ کی ہڈیوں تک پہنچتا رہتا ہے یہ بیماری خاص کر بچوں میں تیزی سے دیکھنے کو مل رہی ہے اس میں ٹیوبر کلوسس مینن جائٹس کی وجہ سے دماغ کی جھلی میں سوجن آجاتی ہے۔دماغی ٹی بی کے مریضوں کی وقت پر معقول علاج نہ ہونے کی وجہ سے ۳۰فیصد مریضوں کی موت ہو جاتی ہے۔ان میں سے جو بچ جاتے ہیں وہ یا تو معذور ہوجاتے ہیں یا پھر آنکھیں کمزور ہوجاتی ہیں۔
انفیکشن کی زد میں ۱۵کروڑ بچے
ٹی بی کے مریضوں کی بڑھتی تعداداور اس خطرہ کو دیکھتے ہوئے ڈبلیو ایچ او(ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) نے اسے گلوبل ایمرجنسی قرار دیا ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال ۱۵ کروڑ بچے ٹی بی انفیکشن کی زد میں آتے ہیں۔ ان میں سے ایک لاکھ ۳۰ہزار کی موت ہو جاتی ہے۔ اس اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے ڈبلیو ایچ او نے سبھی ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ اس مرض کو نظرانداز نہ کریں اور علاج کیلئے سبھی بندوبست مہیا کرائیں۔
کیا ہے اس کا علاج؟
دماغی ٹی بی کے مریضوں کے علاج کیلئے اسپائنل کارڈ(ریڑھ کی ہڈی) سے نمونہ لے کر ٹی بی کے بیکٹیریا کی تصدیق کی جاتی ہے اس کے بعد علاج شروع کیاجاتا ہے۔ سی ٹی اسکین اور ایم آر آئی کے ذریعہ بھی اس کا پتہ لگایاجاتا ہے۔
ڈرگ ریززٹنس بھی ہے ایک سبب
دماغی ٹی بی کے مریضوں میں کچھ حد تک ڈرگ ریززٹنس بھی ہوتا ہے۔ اس میں دواؤں کے مسلسل استعمال سے مرض بڑ ھتا ہے بچوں میں کمزور دماغ بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ہر سال تین فیصد لوگ اس مرض سے متاثر ہوتے ہیں۔ موجودہ وقت میں ۳۴کروڑ ربچے ملک میں ٹی بی انفیکشن کے شکار ہیں۔