لکھنؤ۔ (نامہ نگار)۔ موہن لال گنج میں نابالغ لڑکی کی آبروریزی کے معاملہ میں لئے گئے مجسٹریٹی بیان میں اور اہل خانہ کے بیان میں الگ الگ باتیں سامنے آرہی ہیں۔ متاثرہ کے والد کا کہنا ہے کہ نابالغ نے جب بیان دیا تھا تو وہ ڈری سہمی تھی اسے ماں باپ کی فکر ستا رہی تھی کیونکہ ملزمین نے پورے اہل خانہ کو جان سے مارنے کی دھمکی دی تھی اس وجہ سے اس نے صحیح بیان نہیں دیا تھا اسی وجہ سے اب متاثرہ اور اہل خانہ بیان تبدیل کر کے دوبارہ بیان درج کرائے جانے کی بات کر رہے ہیں۔
اس سلسلہ میں ایک عرضی ایس ایس پی اور وزیر اعلیٰ کو دی گئی ہے۔ تفتیش کرنے والے نے اتوار کولڑکی اور اس کے والد کو پھر کوتوالی بلایا تھا۔ واضح ہو کہ گزشتہ سات جولائی کو علی الصبح پانچ بجے رفع حاجت کیلئے گئی موہن لال گنج کی ۱۷ سالہ مدھو (تبدیل شدہ نام) مشتبہ حالت میں لاپتہ ہو گئی تھی۔ اسے ڈھونڈنے میں ناکام اہل خانہ نے جب تھانہ انچارج موہن لال گنج کو روشناس کرایا تو انہیں لوٹا دیاگیا جس کے بعد سی او موہن لال گنج کی مداخلت کے بعد گیارہ جولائی کو اس کی گمشدگی کی رپورٹ درج کی گئی۔
ایس ایس پی کو بھیجے گئے خط میں لڑکی نے الزام عائد کئے ہیں کہ گاؤںکے ہی راجو نام کے لڑکے نے اسے یرغمال بنا لیا تھا اور اپنے ساتھی ونود کی مدد سے گاؤںکے نزدیک واقع زرعی تعلیمی یونٹ کے فارم پر رکھا۔ اس دوران راجو مسلسل اس کی عزت سے کھیلتا رہا۔ لڑکی کے مطابق ۱۴؍اگست کو راجو اپنا موبائل فارم کے کمرے میں چارجنگ پر لگاکر باہر کسی کام سے گیا تھا اسی دوران لڑکی نے موقع پاکر اس کے موبائل سے اپنے بہنوئی کو فون کر کے اپنی لوکیشن دی۔ جس کے بعد اطلاع پولیس کو ملی اور اسے وہاں سے آزاد کراکر موقع سے راجو اور ونود کو پکڑ لیا گیا جس کے بعد ۱۷؍اگست کو راجو کو جیل بھیج دیا گیا لیکن پولیس نے ونود کو تھانہ سے ہی چھوڑ دیا۔ عرضی میں دی گئی اطلاع کے مطابق دونوں لڑکے لڑکی کو فروخت کرنے کی اسکیم بنا رہے تھے۔