امریکی صحافیوں کے قتل کی مذمت
شدت پسند تنظیم القاعدہ کے سابق رہ نما اور مقتول اسامہ بن لادن کے یورپ میں نائب اردنی عالم دین عمر محمود عثمان المعروف ابو قتادہ نے عراق اور شام میں سرگرم تنظیم دولت اسلامیہ”داعش” کے طریقہ کار کی شدید مذمت کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ داعش نامی گروپ “قتل اور بربادی” کا ایک آلہ ہے۔ انہوں نے داعشی جنگجوؤں سے مطالبہ کیا کہ وہ صحافیوں کو مارنے سے سختی سے گریز کریں کیونکہ صحافی پیغام رساں ہوتا ہے۔
خبر رساں اداروں کے مطابق ابو قتادہ نے داعش کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار گذشتہ روز عمان کی ایک عدالت میں پیشی کے بعد صحافیوں سے گفتگو کے دوران کیا۔ انہوں نے داعش کے ہاتھوں دو امریکی صحافیوں کے مبینہ قتل کی شدید مذمت کی اور کہا کہ داعش قتل اور مسماری کا ایک ہتھیار ہے۔ انہوں نے غیر متوقع طور پر داعش کے بارے میں نہایت سخت لب ولہجہ اختیار کیا اور کہا کہ “یہ لوگ خوارج اور دوزخی کتے ہیں”۔
ابو قتادہ سے پوچھا گیا کہ داعش کی سرکوبی کے لیے وجود میں آنے والے عالمی اتحاد کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے تو انہوں نے کہا کہ میں کسی مسلمان کے خلاف دنیا کے کسی اتحاد کی حمایت نہیں کروں گا۔ تاہم ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ مستقل اہل سنت والجماعت ہی کا ہے۔
خیال رہے کہ القاعدہ کے سابق لیڈر ابو قتادہ کا اپنی ہم خیال تنظیم کے بارے میں یہ رائے ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب دولت اسلامی کے جنگجوئوں نے اگست 2013ء میں یرغمال بنائے گئے دو صحافیوں جیمز فولی اور اسٹیفن سوٹلوف کو مبینہ طور پر قتل کر کے ان کے قتل کی ویڈیو بھی جاری کر دی ہے۔
یاد رہے کہ ابو قتادہ سنہ 1960ء میں فلسطینی شہر بیت لحم میں پیدا ہوئے۔ سنہ 1993ء میں انہوںنے برطانیہ میں پناہ حاصل کی۔ سنہ 2013ء میں دہشت گردی سے متعلق مقدمات کا سامنا کرنا کے لیے انہیں دوبارہ اردن منتقل کیا گیا۔
دہشت گردی کی مخلتف کارروائیوں کےالزامات میں ان پر ایک الزام سنہ 1998ء میں ایک امریکی اسکول پر حملہ اور اردن میں 2000ء کی گولڈن جوبلی تقریبات میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ اردن کی ایک عدالت نے 26 جون کو اپنے ایک فیصلے میں ابو قتادہ کو امریکی اسکول پر حملے کے الزام سے بری کر دیا تھا۔
شدت پسند تنظیم القاعدہ کے سابق رہ نما اور مقتول اسامہ بن لادن کے یورپ میں نائب اردنی عالم دین عمر محمود عثمان المعروف ابو قتادہ نے عراق اور شام میں سرگرم تنظیم دولت اسلامیہ”داعش” کے طریقہ کار کی شدید مذمت کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ داعش نامی گروپ “قتل اور بربادی” کا ایک آلہ ہے۔ انہوں نے داعشی جنگجوؤں سے مطالبہ کیا کہ وہ صحافیوں کو مارنے سے سختی سے گریز کریں کیونکہ صحافی پیغام رساں ہوتا ہے۔
خبر رساں اداروں کے مطابق ابو قتادہ نے داعش کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار گذشتہ روز عمان کی ایک عدالت میں پیشی کے بعد صحافیوں سے گفتگو کے دوران کیا۔ انہوں نے داعش کے ہاتھوں دو امریکی صحافیوں کے مبینہ قتل کی شدید مذمت کی اور کہا کہ داعش قتل اور مسماری کا ایک ہتھیار ہے۔ انہوں نے غیر متوقع طور پر داعش کے بارے میں نہایت سخت لب ولہجہ اختیار کیا اور کہا کہ “یہ لوگ خوارج اور دوزخی کتے ہیں”۔
ابو قتادہ سے پوچھا گیا کہ داعش کی سرکوبی کے لیے وجود میں آنے والے عالمی اتحاد کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے تو انہوں نے کہا کہ میں کسی مسلمان کے خلاف دنیا کے کسی اتحاد کی حمایت نہیں کروں گا۔ تاہم ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ مستقل اہل سنت والجماعت ہی کا ہے۔
خیال رہے کہ القاعدہ کے سابق لیڈر ابو قتادہ کا اپنی ہم خیال تنظیم کے بارے میں یہ رائے ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب دولت اسلامی کے جنگجوئوں نے اگست 2013ء میں یرغمال بنائے گئے دو صحافیوں جیمز فولی اور اسٹیفن سوٹلوف کو مبینہ طور پر قتل کر کے ان کے قتل کی ویڈیو بھی جاری کر دی ہے۔
یاد رہے کہ ابو قتادہ سنہ 1960ء میں فلسطینی شہر بیت لحم میں پیدا ہوئے۔ سنہ 1993ء میں انہوںنے برطانیہ میں پناہ حاصل کی۔ سنہ 2013ء میں دہشت گردی سے متعلق مقدمات کا سامنا کرنا کے لیے انہیں دوبارہ اردن منتقل کیا گیا۔
دہشت گردی کی مخلتف کارروائیوں کےالزامات میں ان پر ایک الزام سنہ 1998ء میں ایک امریکی اسکول پر حملہ اور اردن میں 2000ء کی گولڈن جوبلی تقریبات میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ اردن کی ایک عدالت نے 26 جون کو اپنے ایک فیصلے میں ابو قتادہ کو امریکی اسکول پر حملے کے الزام سے بری کر دیا تھا۔