سپریم کورٹ کا فیصلہ ایک آئینی درخواست کے جواب میں آیا ہے
شہریوں کی لسانی آزادیوں کا اعادہ کرتے ہوئے بھارت کی عدالتِ عظمیٰ نے کہا ہے کہ کسی بھی ریاست کی مقننہ پر اپنے شہریوں کی سہولت کے لیے کسی بھی مقامی زبان کو ریاست کی سرکاری زبان قرار دینے پر
کوئی قدغن نہیں ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق کسی بھی ریاست میں وسیع پیمانے پر بولے جانے والی کسی بھی مقامی زبان کو سرکاری زبان قرار دینے سے اس زبان میں سرکاری خط و کتابت، سرکاری اشتہارات، ہدایات اور معلومات کی فراہمی ممکن ہو سکے گی۔
بھارتی سپریم کورٹ کا آئینی بینچ چیف جسٹس آر ایم لودھا، جسٹس دیپک مسرا، مدن بی لوکور، کورین جوزف اور ایس اے بودے پر مشتمل تھا۔ اس نے اتر پردیش کی ہندی ستیہ سمیلن کی ایک آئینی پٹیشن کو رد کر دیا جس میں اس تنظیم نے اتر پردیش کی سرکاری زبان کے قانون مجریہ 1951 میں ریاستی اسمبلی کی طرف سے کی گئی ترمیم کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔
اتر پردیش کی ریاستی اسمبلی نے اس ترمیم کے ذریعے ہندی کے ساتھ ساتھ اردو کو بھی ریاست کی سرکاری زبان کا درجہ دے دیا تھا۔ ریاستی اسمبلی نے اردو بولنے والی ایک کثیر آبادی کے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہندی کے ساتھ اردو کو بھی سرکاری زبان قرار دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے اس بینچ نے اردو کی ریاست کی سرکاری زبان کی حیثیت برقرار رکھی ہے۔
“سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے ریاست کے سماجی اور دانشور حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اور لوگوں کا کہنا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ ریاست کی سرکار اردو کی ترویج اور فروغ کے لیے کیا اقدامات کرتی ہے اور سرکاری سطح پر اس کو کس حد تک جگہ دی جاتی ہے۔”
سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے ریاست کے سماجی اور دانشور حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اور لوگوں کا کہنا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ ریاست کی سرکار اردو کی ترویج اور فروغ کے لیے کیا اقدامات کرتی ہے اور سرکاری سطح پر اس کو کس حد تک جگہ دی جاتی ہے۔
عدالت عظمیٰ کے بینچ نے اس قانونی نقطے پر توجہ مرکوز کیے رکھی کہ آیا کسی ریاستی اسمبلی پر کسی مقامی زبان کو سرکاری زبان کی حیثیت دینے پر کوئی قانونی پابندی عائد کی جا سکتی ہے کہ نہیں۔
بھارتی آئین کی شق 345 کے مطابق ریاست کی قانون ساز اسمبلی قانون کے ذریعے کسی ایک یا ایک سے زیادہ مقامی سطح پر بولی جانے والی زبانوں کو یا ہندی کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کا اختیار رکھتی ہے۔
چیف جسٹس لودھا نے اس متفقہ فیصلے میں لکھا کہ ہندی کا لفظ اسی لیے اس شق میں ڈالاگیا ہے تاکہ مختلف ریاستوں میں ہندی کے فروغ کو یقینی بنایا جا سکے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی بھی ریاستی اسمبلی کسی مقامی زبان کو فروغ دینے کے اختیار سےدستبردار ہو جائے۔
اس فیصلہ میں اس طرف بھی اشارہ کیا گیا کہ کئی ریاستوں نے ہندی کے علاوہ اپنی مقامی زبانوں کو سرکاری زبان کا درجہ دے رکھا ہے۔
ان ریاستوں میں بہار، ہریانہ، جھارکھنڈ، مدھیہ پردیش اور اترکھنڈ کی ریاستیں شامل ہیں جہاں ہندی کے علاوہ مقامی زبانوں کو بھی سرکاری زبانوں کا درجہ حاصل ہے۔