پیرس میں ہونے والی اس کانفرنس میں عراق سمیت تقریباً 30 ممالک کے رہنما شریک ہیں
فرانس کے صدر فرانسوا اولاند نے عراق اور شام میں سرگرم شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کو عالمی خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے خلاف کارروائی بھی عالمی پیمانے پر ہی ہونی چاہیے۔
انھوں نے یہ بات پیر کو دولتِ اسلامیہ کو شکست دینے کی مشترکہ عالمی حکمتِ عملی پر بات چیت کے لیے منعقد ہونے والی کانفرنس کے آغاز پر کہی۔
دنیا, مشرقِ وسطٰی, دہشت گردی
کانفرنس کے آغاز سے قبل فرانسیسی حکومت نے کہا تھا کہ اس کے جنگی طیارے عراق میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف امریکی فضائی کارروائی کے دوران نگرانی کے عمل میں حصہ لے رہے
ہیں۔
فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند نے یہ بھی کہا ہے کہکلِک برطانوی مغوی کا سر قلم کیے جانے کی ویڈیو سے ظاہر ہے کہ دنیا کو دولتِ اسلامیہ کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔
کلِک قتل و غارت کی مشین
کلِک دولتِ اسلامیہ ہے کیا؟
پیرس میں ہونے والی اس کانفرنس میں تقریباً 30 ممالک کے وزرائے خارجہ شریک ہیں مگر ان میں مشرقِ وسطیٰ کے دو اہم ملک ایران اور شام شامل نہیں ہیں۔
ایران نے اس کانفرنس کو ’محض نمائشی‘ کہہ کر مسترد کر دیا ہے جبکہ شام کے نائب وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ دولت اسلامیہ کے خلاف کسی بھی اتحاد کے موثر ہونے کے لیے اس میں شام کے ساتھ ساتھ روس اور ایران کی شمولیت ضروری ہے۔
۔۔۔ امریکہ اس وقت عراق میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف محدود فضائی کارروائیاں کر رہا ہے تاہم اس کا فی الحال زمینی دستے بھیجنے کا ارادہ نہیں ہے
امریکہ کا کہنا ہے کہ کئی عرب ممالک نے دولتِ اسلامیہ کے خلاف فضائی کارروائیوں کا حصہ بننے کی پیشکش کی ہے۔
تاہم امریکی حکام کے مطابق ان کارروائیوں کے لیے عراقی حکومت کی اجازت درکار ہوگی۔
کلِک دس عرب ممالک سمیت تقریباً 40 ممالک نے شدت پسند دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں سے نمٹنے کے لیے امریکی قیادت میں ایک منصوبے پر دستخط کیے ہیں۔
کلِک امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ عرب ممالک اور دیگر ممالک کی جانب سے دولتِ اسلامیہ کے خلاف کارروائیوں میں مدد کی یقین دہانی سے ان کی بے حد حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔
امریکہ نے پیرس میں منعقدہ کانفرنس میں اہم علاقائی ملک ایران کی شرکت کے امکان کو رد کیا ہے جس پر ایران نے ان مذاکرت کو ’محض نمائشی‘ کہہ کر رد کر دیا ہے۔
“دولتِ اسلامیہ کے خلاف فوجی کارروائیوں کے لیے خطے کے ممالک کے ساتھ فوجی اڈوں اور فضائی حدود کے استعمال کے معاہدے کرنا اہم ہے اور بظاہر خلیجی ممالک ایسا کرنے پر تیار نظر آتے ہیں۔ امریکی حکام مسلسل اس بات پر زور دیتے آرہے ہیں کہ دولت اسلامیہ کے خلاف صدر باراک اوبامہ کا منصوبہ محض ایک فوجی مہم سے بڑھ کے ہے اور یہ کہ دولت اسلامیہ کی انتہاپسندانہ نظریے سے مقابلے کے لیے مصر اور سعودی عرب کے مذہبی رہنماؤں کی مداخلت بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی کہ اسکے اہداف کو بموں سے نشانہ بنانا ہے۔ “
باربرا پلیٹ، نامہ نگار بی بی سی
ایران کے علاوہ اس کانفرنس میں دولت اسلامیہ سے متاثرہ ملک شام بھی شامل نہیں ہے۔ شام کے نائب وزیر خارجہ فیصل مقداد نے کہا ہے کہ امریکی صدر اوباما کا دولتِ اسلامیہ کے خلاف اتحاد کا منصوبہ شام کی شمولیت کے بغیر بے مقصد ہے۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ان کی حکمت عملی میں بہت اہم عوامل موجود نہیں ہیں۔ شام اس وقت شدت پسندی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے اور ہمیں شدت پسندی کے خلاف کسی بھی سنجیدہ جنگ کے درمیان میں موجود ہونا چاہیے۔
’آپ اس وقت تک شدت پسندی کے خلاف لڑ نہیں سکتے جب تک آپ سعودی عرب، قطر اور ترکی سمیت ان ممالک کے ساتھ مل کر کام نہ کریں جنھوں نے ان شدت پسند گروہوں کو بنایا تھا۔‘
سعودی عرب اور قطر دولتِ اسلامیہ کی پشت پناہی کرنے کی تردید کرتے ہیں تاہم ان دونوں ملکوں نے شدت پسندوں گروہوں کو ہتھیار فراہم کیے تھے جن میں سے کئی اب دولتِ اسلامیہ کا حصہ بن چکے ہیں، جبکہ ترکی نے دولتِ اسلامیہ اور القاعدہ سے منسلک شدت پسندوں کو اپنی سرحد سے شام میں داخل ہونے کی اجازت دی تھی۔
شام میں مغرب کی حمایت یافتہ بغاوت کے دوران وجود میں آنے والی تنظیم دولتِ اسلامیہ نے شام اور عراق کے بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا ہے
گذشتہ ہفتے صدر اوباما نے عراق اور شام میں دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں سے لڑنے کی حکمت عملی پیش کی تھی۔
امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کا کہنا ہے کہ دولت اسلامیہ یعنی آئی ایس عراق اور شام میں بڑے حصے پر قابض ہے اور اس کے کلِک تقریباً 30 ہزار جنگجو ہیں۔
امریکہ نے عراق میں نے آئی ایس کو نشانہ بنایا ہے اور صدر اوباما نے دو امریکی صحافیوں کے قتل کے بعد اس گروپ کو ختم کرنے کا عہد کیا ہے۔
دریں اثنا سنیچر اور اتوار کی درمیانی شب دیر رات جاری کی جانے والی ایک ویڈیو میں ایک برطانوی مغوی ڈیوڈ ہینز کے قتل کو دکھایا گيا ہے۔