ترقی پذیر ممالک میں صورت حال بہت خراب ہے جہاں 12 فی صد لڑکیوں کی 15 سال سے کم عمر میں شادی ہو جاتی ہے
بنگلہ دیش کی کابینہ نے شادی کی عمر میں کمی کرنے کی تجویز کے ساتھ کم عمری کی شادی پر سخت اقدامات کی بات کی ہے۔
یہ تجاویز پیر کو بنگلہ دیش کی پارلیمان میں ایک بل کی شکل میں پیش کی گئیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ تجاویز پارلیمان میں منظور کر لی جائيں گی۔
اس میں کہا گیا ہے کہ مردوں کی شادی کی عمر 21 سال سے کم کر کے 18 سال کر دی جائے جبکہ لڑکیوں کی عمر 18 سے کم کر کے 16 سال کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کی سزاؤں میں اضافے کی بات بھی کہی گئی ہے یعنی دو ماہ کی قید کو بڑھا کر دو سال کر دیے جانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ جرمانے میں پانچ گنا اضافے کی بات کہی گئی ہے۔ ابھی یہ جرمانہ پانچ ہزار ٹکا یعنی قریب 130 امریکی ڈالر ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں کم عمری کی شادیاں عام ہیں جسے روکنے کے لیے یہ اقدامات کیے گئے ہیں۔
ان تجاویز کے بارے میں سیکریٹری کابینہ محمد مشرف حسین بھویانی نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ ’جو کم عمری میں شادی کرتے ہیں یا کراتے ہیں وہ اور ان کے والدین سزا کے مستحق ہوں گے۔‘
ترقی پذیر ممالک میں صورت حال بہت خراب ہے جہاں تین میں سے ایک لڑکی کی شادی 18 سال سے کم عمر میں ہو جاتی ہے
تاہم انھوں نے کہا کہ خواتین کو جیل کی سزا نہیں دی جائے گی۔
بی بی سی کے اینگس کرافورڈ نے دوسال قبل رپورٹ دی تھی کہ بنگلہ دیش میں کم عمری کی شادی کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے جہاں 20 فی صد لڑکیوں کی شادی 15 سال سے کم عمر میں ہو جاتی ہے۔
ترقی پذیر ممالک میں صورت حال بہت خراب ہے جہاں 12 فی صد لڑکیوں کی 15 سال سے کم عمر میں شادی ہو جاتی ہے جبکہ تین میں سے ایک لڑکی کی شادی 18 سال سے کم عمر میں ہو جاتی ہے۔
امدادی ایجنسیوں نے اس صورت حال کو ایک ’نئی قسم کی غلامی‘ سے تعبیر کیا ہے جبکہ صورت حال اس بات سے مزید نازک ہو جاتی ہے کہ بعض جگہ لڑکیوں کو بوجھ کے طور پر دیکھا جاتا ہے کہ وہ کماتی نہیں ہیں۔
ہمارے نمائندے کا کہنا ہے کہ اس طرح یہ لڑکیاں پوری طرح سے اپنے خاندان پر انحصار کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔