واشنگٹن: امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کانگریس کو خبردار کیا ہے کہ ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائدکی گئیں توتہران کے ساتھ جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے حوالے سے جاری بین الاقوامی سطح کے مذکرات کا عمل متاثر ہو سکتا ہے۔ میڈیا سے بات کرتے ہو ئے امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا کہنا تھا کہ انکی حکومت ایران پر کوئی بھی نئی پابندی عائد نہیں کرنا چاہتی۔ انہوں نے کہا کہ وہ کانگریس سے سفارتکاری کے عمل کو آگے بڑھانے کی کوشش میں مدد کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جان کیری نے امید ظاہر کی کہ کانگریس ایران کی سنجیدگی جانچنے میں مدد کرے گی۔ اوباما انتظامیہ ایران پر نئی پابندیاں عائد کرنے کے فیصلے کو وقتی طور پر روکنا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے وزیر خارجہ جان کیری کے ساتھ نائب صدر جو بائیڈن نے بھی امریکی سینٹرز سے ملاقات کی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے سینیٹرز کو متنبہ کیا ہے کہ ایران کے خلاف اس مخصوص وقت پر مزید پابندیاں عائد کرنے سے تہران کے متنازعہ جوہری پروگرام کے حل کے لیے جاری مذاکراتی عمل بری طرح متاثر ہو سکتا ہے۔ جان کیری کے بقول پابندیاں عائد کرنے کا مقصد تہران انتظامیہ کو مذاکرات کے لیے میز پر لانا تھا اور اس وقت بات چیت ہی کا عمل جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کانگریس نے ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ یکطرفہ طور پر کیا، تو اس سے مذاکراتی عمل بری طرح متاثر یا مکمل طور پر ختم بھی ہو سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بات بدھ کے روز سینیٹ کی بینکنگ کمیٹی کے ارکان کے ساتھ ملاقات سے قبل رپورٹرز کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہی۔ ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے مابین مذاکرات کا اگلا دور سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں آئندہ ہفتے بیس تاریخ سے شروع ہو رہا ہے اور صدر اوباما کی انتظامیہ نے انہیں مذاکرات کو کامیاب شکل دینے کی کوشش کرنے کے لیے مزید وقت طلب کرنے کی غرض سے وزیر خارجہ کیری اور نائب صدر جو بائیڈن کو کانگریس سے رجوع کرنے کے لیے کہا تاہم انتظامیہ کی اس درخواست کو کانگریس کے چند ارکان کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا ہے۔ سینیٹ کی خارجہ امور سے متعلق کمیٹی کے سربراہ ری پبلکن ایڈ روئس کا اس بارے میں کہنا تھا، ”ایران نے اپنے ایٹمی پروگرام کو تاحال نہیں روکا ہے، تو ہم پابندیاں لگانے سے متعلق اقدامات کو کیوں ترک کریں؟ امریکا کو شبہ ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کی آڑ میں جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کوشش میں ہے امریکا کو شبہ ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کی آڑ میں جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کوشش میں ہے۔ کانگریس کے مؤقف کا جواب جان کیری نے کچھ ان الفاظ میں دیا کہ ہم صرف ذرا سے اطمینان کا مظاہرہ کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ اس بات پر غور کیا جانا چاہیے کہ اس سے کیا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اگر اس سے ہمارا مقصد حاصل نہیں ہوتا، تو ہم مزید پابندیاں عائد کرنے کا راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔ میں بذات خود کانگریس میں اس حوالے سے درخواست لے کر آؤں گا اور پھر عسکری کارروائی کا آپشن بھی موجود ہے۔ قبل ازیں امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان جینیفر ساکی نے رپورٹروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیر خارجہ ایران کے خلاف نئی مجوزہ پابندیوں میں ‘عارضی تعطل’ چاہتے ہیں تاکہ چھ عالمی طاقتوں کو اس دس سالہ پرانے تنازعے کے سفارتی حل کے لیے وقت مل سکے۔جنیوا میں گزشتہ ہفتے ہونے والے مذاکرات اس لیے بے نتیجہ رہے تھے کیونکہ ایران نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ اس کے ‘یورنیم کو افزودہ کرنے کے حق’ کو سرکاری طور پرتسلیم کیا جائے۔ اس کے علاوہ ان مذاکرات میں شامل ملک فرانس کی جانب سے بھی چند کڑے مطالبات سامنے رکھے گئے تھے۔ وائٹ ہاؤس کی طرف سے گزشتہ روز جاری کردہ ایک بیان میں یہ بھی بتایا گیا کہ صدر اوباما نے اپنے فرانسیسی ہم منصب فرانسوا اولانڈ کے ساتھ بذریعہ ٹیلی فون رابطہ کیا ہے اور ایران پر دونوں ممالک کا مؤقف یکساں ہے۔واضح رہے کہ ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام کا حل تلاش کرنے کے لیے اوباما پر قومی اور بین الاقوامی سطح پر کا فی دباؤ ہے۔ واشنگٹن کے اہم اتحادی ممالک سعودی عرب اور اسرائیل دونوں ہی کچھ زیادہ مطمئن نہیں ہیں اور وہ تہران کے خلاف سخت تر اقدامات کے حامی ہیں۔ ایران کے خلاف زیر غور نئی پابندیوں کے لیے ایوان نمائندگان نے جولائی سے منظوری دے رکھی ہے تاہم مکالمت کو وقت دینے کے لیے سینیٹ نے ان پابندیوں کے اطلاق میں تاخیر کا فیصلہ کیا تھا۔ ان مجوزہ پابندیوں کے مسودے میں ایران کی کان کنی اور کنسٹرکشن سے متعلق صنعتوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ امریکا اور دیگر مغربی ممالک کو شبہ ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کی آڑ میں جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کوشش میں ہے جبکہ تہران انتظامیہ اس الزام کو رد کرتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام پر امن مقاصد کے لیے ہے۔