حوثی تحریک کے سربراہ حسین العزی (بیٹھے ہوئے) امن معاہدے پر دستخط کر رہے ہیں۔ ان کے پیچھے یمن کے صدر منصور ہادی کھڑے ہیں
یمن کی حکومت اور شیعہ حوثی باغیوں نے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس کا مقصد اس سیاسی بحران کو ختم کرنا ہے جس نے گذشتہ کئی ہفتوں سے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
معاہدے کے تحت ایک نئی حکومت تشکیل دی جائے گی اور حوثی اور ملک کے جنوب میں علیحدگی پسند تین دنوں کے اندر اندر نئے وزیرِ اعظم کا انتخاب کریں گے۔
دنیا, مشرقِ وسطٰی
اس سے چند گھنٹے قبل دارالحکومت صنعاء میں باغیوں اور سرکاری فوج کے درمیان جھڑپوں کے بعد وزیرِ اعظم محمد باسندوہ نے استعفیٰ دے دیا تھا۔
اس دوران صنعاء میں بیسیوں افراد ہلاک ہوئے ہیں اور سینکڑوں شہر چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں۔
اتوار کے روز باغیوں نے کہا تھا کہ انھوں نے حکومت کے ہیڈکوارٹرز، اہم وزارتوں اور سرکاری میڈیا پر قبضہ کر لیا ہے۔
جھڑپوں میں شدت آنے کے بعد وزیرِ اعظم محمد باسندوہ نے کہا تھا کہ وہ اپنے عہدے سے دست بردار ہو رہے ہیں تاکہ باغیوں اور صدر ابوربہ منصور ہادی کے درمیان معاہدے کی راہ ہموار ہو سکے۔
صنعاء میں بی بی سی کے نامہ نگار نے کہا کہ حوثی تحریک کے مطالبات میں نئے وزیرِ اعظم کی نگرانی میں نئی اتحادی حکومت کی تشکیل شامل تھی۔
یمن کی وزارتِ داخلہ کی ویب سائٹ پر شائع شدہ ایک بیان میں سکیورٹی فورسز پر زور دیا گیا ہے کہ وہ باغیوں سے نہ لڑیں اور کہا
گیا ہے کہ وہ ’پولیس کے دوست‘ ہیں۔
حوثی تحریک کے ترجمان محمد عبدالسلام نے بھی کہا ہے کہ باغی سکیورٹی فورسز کے عناصر کے ساتھ مل گئے ہیں۔
انھوں نے اپنے فیس بک کے صفحے پر لکھا: ’یہ بغاوت فوج اور سکیورٹی اداروں کی حمایت یافتہ تھی۔‘
اس سے قبل یمنی صدر ہادی نے باغیوں کو صنعاء پر حملے کو ’تختہ الٹنے کی کوشش‘ قرار دیا تھا۔ تاہم اتوار کو انھوں نے دارالحکومت میں ایک تقریب میں باغیوں کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے کی راہ اقوامِ متحدہ کے ایلچی جمال بن عمر نے ہموار کی تھی۔