خالق کائنات ،مالک یوم الحساب،قابض موت وحیات،قابل حمد وثنا او راحکم الحاکمین نے اپنی قدرت کاملہ سے بحروبر،دست وچمن سے جگمگاتے او رشجر وحجر سے لہلہاتے کون ومکاں کا وجود بخشتااور اس عالم فانی میں حضر ت آدم علیہ السّلام کو پیدا فرمایا او رحضرت حوا علیہ السّلام کی تخلیق کے ذریعہ اس دارفانی کو زینت بخشا۔
اسی وقت سے یہ قافلہ انسانیت کو عامہ وآباد کرتا ہواآگے بڑھا او ریہاں تک آپہونچا کہ اب اس کا احاطہ انسانی قوت سے بالاتر ہے۔
بہر حال ہمیشہ سے قدرت کایہ دستور رہا ہے کہ
جب صداقت وامانت کا درخت مرجھانے لگتا ہے۔اخوت ومحبت کے رنگین ورق بکھرنے لگتے ہیں عدالت کاباغ ویران ہونے لگتا ہے۔خدا کے کلمہ حق وصدق کا شجر طوبی ہے۔برگ وبار ہوجاتا ہے اس وقت روح انسانیت چیختی ہے پکارتی ہے کہ اے خدارحم فرما، کرم فرما اس آہ وبکا او رچیخ وپکار سے رحمت خدا وندی جوش میں آتی ہے اور ارحم الراحمین کائنات انسانیت پر رحم وکرم کا انقلاب بپا کردیتا ہے۔
اسی عالم انسانیت کے فیض روحانی کا ایک عظیم انقلاب عرب کی وادی میںرونماہوا جس نے سارے جہاں کے ریگستانوں کو سرسبز وشادابی کی بشارت سنائی یہی وہ خدا کا حبیب او رحجاز کا ماہ تاباںہے جس نے توحید الٰہی کی چمکتار سے کفرستان کو جگمگادیا اور پورے عالم میں اسلام کا علم نصیب کردیا او ریہی سے مذہب اسلام اور مسلم قوم کا ایجاد ہوا۔
اسلام کی آمد سے قبل پوری دنیا میں چاروں طرف ظلم وستم کی تاریکیاں چھائی ہوئی تھی،ہر طرف جبروتشددکا دور دورا تھا او رامن وسلامتی کا جنازہ اٹھ چکا تھا، ہرجانب جہالت ہی جہالت تھی حق گوئی راست بازی پامال ہوچکا تھا،انسانی اخلاق وکردارکاخاتمہ ہوچکا تھاشب دیجور میں کوئی بھی شخص چرا روشن کرنے کیلئے تیار نہیں تھا، لیکن جب اسلام کاسورج طلوع ہواتمام تاریکیاں دورہوگئی ہر طرف امن واما ن ہوگیا ظلمت کا جواب چاک ہوگیایہ وہی مسلمان قوم ہے جو رسول اللہ ﷺ کی گود میںپھولی پھلی اور پلی ہے اور اسلامی حکومتوں کا سنگ بنیاد خود سرور عالمؐ نے اپنے دست مبارک سے رکھا ہے۔
یہ کون نہیں جانتا کہ رسول مقبول ﷺ نے جو مجاہدانہ اور سرفروشانہ جذبات مسلمانوں میں پیدا کرد ی تھی ۔اس کی بدولت مسلمانوں نے مختصر سے عرصہ میں دنیا کا بیشتر حصّہ فتح کرڈالا مسلمانوں کی سب سے پہلی قابل ذکرفتح مکہ کی تسخیر تھی جسے خود رسول اللہ ؐ نے فتح کیا تھا اس کے بعد طائف فتح ہوا اور رفتہ رفتہ مسلمان پورے عرب پر قابض ہوگئے۔
مسلمانوں کی فتوحات کا دوسرا دور خلفائے راشدین کے عہد حکومت سے شروع ہوا،چنانچہ حضرت ابوبکرصدیقؓ کے دور حکومت میں مسلمانوں نے ملک شام پر حملہ کیا اور عراق کو فتح کرلیا ،بعد ہٗ حضرت عمر فاروقؓ کے دور حکومت میں مسلمانوں کو نہایت ہی شاندار فتوحات حاصل ہوئیں شہر بعلبک فتح ہوا ،شہزار اور حمص پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا بیت المقدس کے عیسائیوں نے اطاعت قبول کرلی مصر اور ایران کومسلمانوں نے فتح کرلیا شام پر بھی مسلمانوں کا پوراتسلط ہوگیا پھر حضرت عثمان غنیؓ کے دورحکومت میں شمالی افریقہ فتح ہوا،جزیر قبرص او رجزیرہ روڈ س مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا او رایران کے باقی حصّے بھی فتح ہوگئے۔
خلفائے راشدین کے بعد بھی اسلامی فتوحات کا سلسلہ برابر جاری رہا ،چنانچہ بنی امیہ کے دور حکومت میں مسلمانوں نے قسطنطنیہ او ر سلطنت روما پر حملہ کرکے بنیادوں کو ہلادیا پورا روسی ترکستان فتح کرلیا۔
افغانستان میں فتوحات حاصل کیں اور نصف چین پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا اس کے علاوہ مسلمانوں نے اسپین اور پرتگال کا پورا حصّہ فتح کرلیا۔اور جنوبی فرانس پر بھی قبضہ جمالیا اس کے بعد ہندوستان کا بھی ایک بہت بڑا حصّہ فتح کرلیا، یہ تمام عظیم الشان فتوحات ستریا اسّی سال کے اندر اندر مسلمانوں کو حاصل ہوگئی تھیں۔
ان فتوحات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ رسول مقبول ﷺ نے جس اسلامی حکومت کی بنیاد اپنے دست مبارک رکھی تھی۔
اسی اسلامی حکومت نے دنیا میں کیسے کیسے عظیم الشان کارنامے انجام دئیے ہیں حقیقت یہ ہے کہ آفرینش عالم سے لے کر اس وقت تک ایک بھی مثال ایسی نہیں ملتی ہے کہ کسی قوم نے اتنی مختصر مدت میںدنیائے معلومہ کا نصف سے زیادہ حصّہ فتح کردیا ہو۔
اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ مسلمانوں کی یہ فتوحات عارضی اور وقتی نہیں تھیں بلکہ مسلمانوں نے ہزار برس تک ان مفتوحہ ممالک پر بڑی شان اور دبدبہ کے ساتھ حکومت کی ہے۔اسپین اور پرتگال چھوڑ کر آج بھی دنیا کے ہر حصّہ میں مسلمانوں کی یہ حکومتیں خفیف سے ردوبدل کے بعد نہ صرف قائم ہیں بلکہ ان میں انڈونیشیا جیسی جدید اسلامی حکومتوں کا مزیداضافہ ہوگیا ہے یعنی آج بھی میں جتنی بھی اسلامی حکومتیں دکھائی دے رہی ہیں۔وہ سب کی سب رسول پر نورؐ کی قائم کردہ مقدس اسلامی حکومت ہی قابل فخرشاخیں ہیں۔
رسول مقبول آمنہ کے پھول محمد ﷺ کی قائم کردہ وہ آزادی اسلامی حکومت جس نے اپنے جنگلی کارناموں سے ساری دنیا میں تہلکہ برپا کردیا تھا۔
اس کے قیام کیلئے شہنشاہ دوجہاں رسول خد ﷺ کو کیسی کیسی صبر آزمامشکلات کاسامنا کرنا پڑا ہے اس کی داستان بے حد طویل ہے۔
بہرحال مسلمان خواہ مشرقی ہو یا مغربی ایرانی ہو یا افغانی ،تورانی ہو یا ہندی اور چینی سب کا غیر فانی عقیدہ ہے کہ وہ مسلمان قوم جسے رسول اللہ ﷺ نے جنم دیا ہے کبھی فنا نہیں ہوسکتی اور وہ اسلامی سلطنتیں جن کا سنگ بنیادآقائے دوجہاں نے اپنے دست مبارک سے رکھا ہے کبھی نہیں مٹ سکتیں چنانچہ تاریخی حقائق شاہد ہیں کہ مسلمان قوم اور اسلامی سلطنتوں کو مٹانے کیلئے دنیا کی بڑی سے بڑی طاقتیںمتحد ہوکر ان پر تل پڑیں مگر وہ اس وقت تک مسلمانوں کا کچھ نہ بگاڑ سکیں جب تک کہ مسلمانوں نے خود یہی اپنی بدعملیوں او رخانہ جنگیوں سے اپنے آپ کو تیار نہیں کرلیا۔
یہ حقیقت روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ دنیا کی ہر قوم کی تاریخ سے کہیں زیادہ شاندار ہے اسلامی تاریخ کے مطالعہ کے بعد یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ قوم دنیا میں پیدا ہی اسی لئے ہوئی ہے کہ مٹ مٹ کر بنے اور گر گر اٹھے اور دنیا پر حکمران اور بادشاہی کرے چنانچہ آفرینش عالم سے لے کر اس وقت تک سوائے مسلمان قوم کے کوئی ایسی پیدا نہیں ہوئی جس نے ایک صدی سے بھی کم مدت میں نصف دنیا پر اپناپرچم لہرایا ہو دنیا کی تاریخ میں یہ طرۂ امتیاز صرف مسلمان قوم ہی کو حاصل ہے کہ یہ قوم انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں رسول اللہ ﷺ کی زیرقیادت جب میدان میں آئی تو اس نے مختصر سے عرصہ میں عرب،یمن ،عراق، شام ،فلسطین،مصر ،ایران ،ترکستان،افغانستان، افریقہ،اسپین ،جنوبی فرانس چین اور ہندوستان تک کو فتح کرڈالااس کے بعد اس قوم کی فتوحات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا۔
فاتحین اسلام کی خصوصیتیں ایسی ہیں جن کی مثال دنیا تاریخ میں ڈھونڈھنے سے نہیں مل سکتی پہلی خصوصیت تو یہ ہے کہ جن فاتحان اسلام نے ملک کے ملک فتح کرڈالے وہ سب کے سب ابتداء میں مشرکین کافر اور اسلام کے جانی دشمن تھے لیکن جب انہوں نے اسلام قبول کرلیا تو وہی سب سے بڑھ اسلام کے فداکاربن گئے۔
دوسری خصوصیت یہ ہے کہ فاتحان اسلام نے صرف ملکوں ہی کو فتح نہیں کیا بلکہ یہ نرمی ،رواداری او رحسن سلوک کی بناء پر مفتوحہ ممالک کے باشندوں کے قلوب کو بھی فتح کرتے چلے گئے۔ چنانچہ فاتحین اسلام کے حسن سلوک حسن اخلاق اور رواداری کا نتیجہ یہ نکلا کہ فاتح اور مفتوح میں دشمنی اور کشیدگی کی بجائے ایسی محبت پیدا ہوگئی کہ یہ پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ کون فاتح ہے اور کون مفتوح ہے سب ایک ہی رنگ گئے۔فاتحین اسلام کا ہمیشہ یہ طریقہ کار رہا ہے کہ وہ حکومتوں او رحکمرانوں کے ساتھ ٹکرلیا کرتے تھے لیکن اس کی رعایا کو سینہ سے لگاکرتے تھے چنانچہ بدر کے قیدیوں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے مجاہدین کو ہدایت پائی تھی۔
خود بھوکے رہنا مگر ان کو پیٹ بھر کر کھانا کھلانا۔ان کے ساتھ مہربانی او رمحبت سے پیش آنا رسول مقبول ﷺ کے بعد جب خلفاء راشدین کے ہاتھ میں حکومت آئی تو انہوں نے حضور ﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے مفتوحین کے ساتھ انتہائی رواداری او رمحبت کاثبوت دیا چنانچہ حضرت ابوبکرصدیقؓ نے حضرت اسامہؓ بن زید کی سرکردگی میں جب شام کیلئے لشکرروانہ فرمایاتھاتوآپ نے اسلامی کمانڈروں کو ہدایت کی تھی۔
جس سے جو عہد بھی کرو اسے پورا کرنا۔جنگ میں بچو بوڑھوں عورتوںاور بیماروں کو قتل نہ کرنا،پھلدار درخت کو ہرگز برباد نہ کرنا کھیتوں اور مکانوں کو آگ نہ لگانا کھانے کی ضرورت کے علاوہ اونٹ بکری، گائے اور دوسرے چوپایوں کو نہ مارنا جب کسی قوم پر فتح یاب ہو تو اسے نرمی کے ساتھ اسلام کی جانب دعوت دینا اس پر کسی قسم کی زیادتی نہ کرنا وہ یہودی اور عیسائی جو ترک دنیا کرکے عبادت خانوں میں بیٹھ گئے ہیں اس سے کسی قسم کا تعرض نہ کرنا ان کے عبادت خانوں کو ضررنہ پہونچانا۔
حضرت ابوبکرصدیقؓ کے ان ارشادات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فاتحان اسلام کا سلوک مشرکین کے ساتھ کس قدر فیاضانہ تھااسی طرح حضرت عمرفاروق ؓ کے عہد حکومت میںجب مسلمانوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہوگیا تو حضرت عمرفاروقؓ نے عیسائیوں کو جوامان نامہ لکھ کر دیا اس کا لب لباب یہ تھا۔
بیت المقدس والوں کی جان،مال گرجے،صلیب، بیمار،تندرس سب کو امان دی جاتی ہے ،ہرمذہب والے کو امان دی جاتی ہے ان کے گرجاؤں میںسکونت نہ کی جائے گی اور وہ نہ ڈھائے جائیں گے یہاں تک کہ ان کے احاطوں کو بھی نقصان نہیں پہونچا جائے گا۔
مسلمانوں کے اس فیاضانہ سلوک ہی کا یہ اثر تھا کہ مسلمان جن ممالک میں فاتحانہ حیثیت سے داخ ہوئے وہاں کے باشندوں نے مسلمانوں کو ہاتھوں ہاتھ لیااو ران ممالک کے باشندوں کی اکثریت نے مسلمانوں کے حسن سلوک اور اسلامی محاسن ونوایا سے متأثر ہوکر خود بخود اسلام قبول کرلیا اور وہ یہی نومسلم باشندے اسلام کے جانباز سپاہی بن گئے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے پہلی مرتبہ دنیا کو بتادیا کہ جنگ جیسے انسانیت سوز سیلاب میںپھنسنے کے باوجود بھی انسانی اخلاق کو کس طرح بلندوبالا رکھا جاسکتا ہے ورنہ طلوع اسلام سے قبل حکمرانوں او رحکومتوں کا معیار انسانیت یہ تھا کہ مفتوحہ ممالک کے باشندوں کو یاتو تہہ تیغ کردیا جاتا ہے یاتو غلام بناکر اس پر انسانیت سوزمظالم توڑے جاتے تھے چنانچہ اسلام نے برسراقتدار آنے کے بعد جب ایک نیا شریفانہ نظام جنگ دنیا کے سامنے پیش کیا تو ساری دنیا حیران رہ گئی۔ اسلام کی اس رواداری حسن سلوک او رفیاضانہ برتاؤ کے وہ عیسائی بھی معترف ہے جو مذہب اسلام اورمسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن تھے۔بہرحال مذہب اسلام پر ہمیشہ یلغار کی گئی او راسلام کو حتی الامکان مٹانے کی سعی کی گئی لیکن اسلام ہر جانب پھیلتا اور پھولتا چلاگیا جیسا کہ شاعر نے کہا ؎
اسلام وہ پودہ ہے کاٹو تو ہرا ہوگا
جتنا کہ دباؤگے اتنا ہی وہ ابھرے گا
ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کی آمد کے سلسلہ میں ہندوستانی اور یورپین مؤرخین یہ کہتے رہے ہیں کہ مذہب اسلام سب سے پہلے فاتح سندھ محمدبن قاسم کے حملہ کے وقت ۹۳ھ بمطابق ۷۱۲ء میں ہندوستان میں داخل ہوئے لیکن حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے امر واقعہ یہ ہے کہ اسلام او رمسلمان محمدبن قاسم کے حملہ سے بہت ہی قبل رسول اللہ ﷺ کے زمانۂ حیات ہی میں ہندوستان آچکا تھا اور اس ملک میں پھیلتا جارہا تھا۔
مذہب اسلام کی اتنی جلد ہندوستان میں آجانے کی وجہ یہ ہوئی کہ رسول عربیؐ کی ولادت باسعادت سے قبل عرب تاجر مالابار، کارومنڈل، لنکا،مالدیپ،انڈونیشیا او رچین کے ساحل تک کشتیوں میں جلوس اختیار کرکے بغرض تجارت آتے جاتے رہتے تھے،یعنی ہندوستا ن او رملک عر ب کے درمیان زمانۂ دراز سے تجارتی تعلقات قائم دائم تھے یہاں تک کہ اکثر عربوں نے ہندوستان میں بودوباش بھی اختیار کرلی تھی چنانچہ عربوں نے جب دین اسلام قبول کرلیا تب بھی وہ حسب سابق ہندوستان میں تجارت کیلئے آتے جاتے رہے او ران میں سے اکثر وبیشتر نے ہندوستان اپنا وطن بنالیااور اس طرح سے یہ لوگ اپنے ساتھ اسلامی تعلیمات کو بھی ہندوستان لے کر آگئے اسلامی تعلیمات میں چونکہ بے حد جازبیت اور بلا کی کشش ہے اس لئے جنوبی ہند او رہندوستان کے دوسرے حصّوں میں اسلام تیزرفتاری اور برق رفتاری کے ساتھ پھیلنے لگا یہاں تک اسلام آج ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں پہونچ چکا ہے بعینہ اسی طرح سراندیپ جو موجودہ سری لنکا یا سیلون کے نام سے موسوم ہے اورہندوستان کے دوسرے حصّوں میں آباد ہونے والے وہ تاجر جو ابھی تک ،عرب کے اندورونی انقلاب سے متأثر نہیں ہوئے تھے،کفر کے مقابلہ میں اسلام کی فتوحات کو ایرانیوں اور رومیوں کے مقابلہ میں عرب کی فتوحات سمجھ کر خوشی سے پھولے نہیں سمائے تھے ،عربوں کے نئے دین سے ان کی نفرت اب محبت میں تبدیل ہورہی تھی اس زمانے میں جن لوگوں کو عرب جاننے کا اتفاق ہوا وہ اسلام کی نعمتوں سے مالا مال ہوکر واپس آئے اور وہیں سے ہندوستان میں اسلام پھیلنا شروع ہوگیا انہیں تاجروں میں سے ابوالحسن نامی ایک شخص ہے جو مشرف باسلام ہوکر ہندوستان آیا اور یہی کا ہوکر رہ گیا۔ بحوالہ محمدبن قاسم صفحہ نمبر۱۲۔
اگر آپ تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں تو آپ کے سامنے یہ بات کھل کر عیاں آجائے گی کہ رسول مقبول ﷺ کے زمانۂ حیات سے لے کر محمدبن قاسم کے ہندوستان پر حملہ آورہونے تک کے درمیان عرصہ میں نہ صرف ہندوستان کے عام لوگوں کی ایک بہت بڑی جماعت ہے اسلام قبول کرلیا تھا،بلکہ بعض ہندوستانی راجہ بھی حلقہ بگوش اسلام ہوگئے تھے،مالا بار کاراجہ زمودی سامری معجزہ شق القمر دیکھ کر رسول اک ﷺ کی زندگی ہی میں دین اسلام قبول کرلیا تھا۔
ہندوستان کی تاریخ کی معتبراور مستحکم کتاب تاریخ فرشتہ میں ہے کہ واقعہ شق القمر کے وقت ہی ہندوستان کا راجہ ملیبار نے اس محیر العقول واقعہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھااور اپنے روزنامچہ میں لکھوایا تھا او ریہی واقعہ اس راجہ کے مسلمان ہونے کا سبب بنا او ریہ واقعہ مکۃ المکرمہ میںچاندنی رات میں ٹھیک نو بجے شب میں پیش آیا اوریہی واقعہ مختلف ممالک میں مختلف اوقات میں دیکھا گیا جس کو بیان کرنے کی یہاں چنداں ضرورت نہیں ہے۔(بحوالہ تاریخ مکۃ المکرمہ صفحہ نمبر ۲۶۱ ۔معارف القرآن جلد نمبر ۸ صفحہ نمبر ۲۲۷)۔
اور لنکاکاراجہ بھی خلفائے راشدین کے عہد حکومت میں مشرف باسلام ہوچکا تھا، مشہور سیاح ابن بطوطہ جب لنکا گیا تھاتو اس نے وہاں بہت سے بزرگوں کے مزارات اور متعدد مسجدیں دیکھی تھیں جو اس بات کا کھلاثبوت ہے کہ ابتداء ہی میں ہندوستان میں اسلام پھیل چکا تھا اسلام کی یہ ہر دلعزیزی صرف لنکا مالا بار مالدیپ انڈونیشیا او رجنوبی ہند ہی تک محدود نہیں تھی بلکہ سندھ پر مسلمانوں کے حملہ سے بہت قبل سندھیوں میں بھی اسلام برابر مقبولیت حاصل کرتا چلا جارہا تھاچنانچہ جس زمانہ میں عرب کے مسلمانوں اور ایران کے آتش پرستوںمیں سلسلہ جنگ جاری تھااور سندھ کے راجہ کی جاٹ فوجیں آتش پرستوں کی نصرت ومدد کے لئے ایران میں مسلمانوں کے خلاف لڑرہی تھیں تو ہندوستان کے ان جاٹ سپاہیوںمیں سے اکثر نے اسلام کے محاسن ومزایا اور مسلمانوںکی نرمی اور رواداری اوراخلاق کریمانہ سے متأثر ہوکر اپنا آبائی مذہب ترک کرکے اسلام قبول کرلیا تھا یہاں تک کہ ان جاٹوں میں سے اکثر نے ہندوستان چھوڑ کر عراق میں بودوباش اختیارکرلی تھی عرب ان نومسلم ہندوستانی جاٹوں کوزط کہتے تھے چنانچہ حضرت علیؓ کے عہد خلافت میں بصرہ کے خزانہ کی حفاظت کا اہم کام اسی نومسلم ہندوستانی زط قوم کے ایک دستہ کے سپرد تھا اس طرح ہندوستان میں مذہب اسلام کی آمد ہوئی ہے او راسلام بتدریج ہندوستان کے چپہ چپہ گوشہ گوشہ اور گلی گلی میںپھیل گیا یہاں تک کہ ایک دور یہ آیا کہ پورے ہندوستان پر اسلامی حکومت کا پرچم لہرانے لگااور مسلمانوں کے تقریباً گیارہ سو سال تک بڑی شان وشوکت کے ساتھ حکومت کی ہے اور پورے ہندوستان پر تقریباً سات خاندان کے بادشاہوں نے حکومت کی ہیں (۱)غزنوی خاندان(۲) غوزی خاندان(۳)خاندان غلامان (۴)شاہان خلجی (۵) شاہان تعلق (۶)شاہان لودھی (۷)خاندان مغلیہ یہ وہ خاندان کے بادشاہ ہیں جس نے پورے ہندوستان پر حکومت کی ہے بہرحال خلاصہ یہ ہے کہ رسول عربی ﷺ کے زمانہ حیات ہی میں شق القمر کے واقعہ کے وقت ہندوستان کے بعض راجہ مشرف باسلام ہوچکے تھے جس کے ذریعہ ہندوستان میں اسلام پھیلتا چلاگیا ۔
(بحوالہ تاریخ فرشتہ ،تاریخ مکۃ المکرمہ ص ۲۶۱ معارف القرآن ج ۸ ص ۲۲۷،مکمل تاری اسلام ص ۸۷۹)