آج تیز رفتار والے دور کا اثر انسانی زندگی کے ہر پہلو پر پڑتا نظر آ رہا ہے تو اس سے بالی ووڈ کی فلمیں بھی الگ نہیں ہیں۔ ماضی میں جب فلمیں بنانے کے معاملے میں انتہائی باریک بینی سے کام لیا جاتا تھا اس وقت فلم کی لمبائی اس کی کامیابی کی راہ میں آڑے نہیں آتی تھی۔ بڑی فلمیں بھی ناظرین کو اپنی اپنی کرسیوں پر باندھے رکھتی تھی اور فلم ہٹ بھی ہوتی تھی۔ لیکن موجودہ دور میں اگر تھوڑی پکڑ فلم پر ڈھیلی پڑی کہ اس فلم کے کامیاب ہونے کے سامنے خطرے کے بادل منڈلانے لگتے ہیں۔ اسی وجہ سے آج بیشتر ڈائریکٹر پروڈیوسر کی کوشش ہوتی ہے کہ کم وقت میں ناظرین کے لئے پوری تفریح کا سامان پیش کیا جائے۔ اب اگر فلم کی کہانی کمزور ہوئی تو ناظرین کو اپنی جگہ باندھے رکھناکافی مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسی فلمیں انہیں بے مزہ لگتی ہیں۔ اس لئے آج کا دور شارٹ فلموں کا ہو کر رہ گیا ہے۔ انیس سو ستر میں راج کپور کے ڈائریکشن میں آئی میرا نام جوکر، جسے بنانے میں تقریبا چھ سال لگ گئے تھے، کی لمبائی چار گھنٹے چودہ منٹ کی تھی۔ جس میں دو انٹرول بھی ہوا کرتے تھے۔ انیس سو چونسٹھ میں سہ رخی لو اسٹوری پر بنی فلم سنگم کی لمبائی بھی تین گھنٹے اٹھاون منٹ کی تھی۔ دو ہزار تین میں جے پی دتہ کے ڈائریکشن میں بنی فلم ایل او سی کو دیکھنے کے لئے ناظرین ک
و اپنی کرسیوں پر چار گھنٹے دو منٹ تک بیٹھے رہنا پڑا تھا۔ دو ہزار آٹھ میں منظرعام پر آئی فلم جودھا اکبر کی لمبائی تین گھنٹے پچاس منٹ کی تھی۔ دو ہزار ایک میں آئی عامر خان کی فلم لگان تین گھنٹے پچاس منٹ کی تھی۔ ان تمام لمبی فلموں میں صرف ایک ایل او سی ایسی فلم رہی جو اپنی لمبائی کے حساب سے کمائی کرنے میں پیچھے رہ گئی تھی۔ یعنی اگر فلموں کی کہانی پر گیت اچھے رہے تو لمبائی کوئی معنی نہیں رکھتی کیونکہ آج تو اسی کو دیکھتے ہوئے لمبی فلمیں بنانے سے ڈائریکٹر پروڈیوسر بچنے لگے ہیں۔ حالیہ ریلیز اومنگ کمار کے ڈائریکشن والی فلم میری کام دو گھنٹے کی ہے۔ انیس سو ننانوے میں جب سبھاش گھئی نے تقریبا تین گھنٹے کی تال بنائی تھی۔ تو وہیں رام گوپال ورما نے نوے منٹ کی ’کون‘ بنا کر سب کو حیرت میں ڈال دیا تھا۔ ان دونوں فلموں کو ناظرین نے پسند کیا تھا۔ انیس سو نوے کی دہائی میں چھوٹے پردے پر انگریزی چینلوں کے کھلنے کے ساتھ ہی ہندی فلموں کی لمبائی کم ہوتی گئی۔ دو ہزار تک سبھاش گھئی کی فلمیں قریب قریب تین گھنٹے کی ہوتی تھی۔ کرما ایک سو چورانوے، رام لکھن ایک سو چوہتر، کھلنایک ایک سو اکیانوے اور پردیس ایک سو اکیانوے منٹ والی فلمیں اس کی عمدہ مثال ہے۔ لیکن فلموں کی لمبائی کم ہونے سے ان کی کہانی پر منفی اثر پڑا۔ کہانی کمزور ہوتی گئی۔ دو ہزار آٹھ میں ان کی یوراج جہاں ایک سو باسٹھ منٹ کی تھی تو وہیں اسی سال آئی ان کی فلم بلیک اینڈ وائٹ ایک سو اڑتیس منٹ کی تھی۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی آئی سبھاش گھئی کی فلم کانچی کی لمبائی ایک سو چالیس منٹ کی تھی۔ سنجے لیلا بھنسالی کو بھی وقت کے ساتھ اپنا قد کم کرنا پڑا۔ انیس سو ننانوے میں انہوں نے فلم ہم دل دے چکے صنم ایک سو اٹھاسی منٹ کی بنائی تو دو ہزار دو میں دیوداس کے لئے ایک سو تراسی منٹ ہی دے پائے۔ لیکن دو ہزار سات میں انہوں نے ’سانوریا‘جس کو ایک سو چالیس منٹ میں ہی سمیٹ دیا جبکہ گزارش کے لئے ایک سو سولہ منٹ کا وقت ہی نکال پائے۔ اگرچہ گزشتہ سال آئی فلم گولیوں کی راس لیلا، رام لیلا کو سنجے لیلا بھنسالی نے ایک سو پچپن منٹ تک گھسیٹا۔ کیا یہ لمبائی ناظرین کو پسند آئی اس میں دو رائے ہے۔گزشتہ سال کی سب سے کامیاب فلم شاہ رخ خان کی چنئی ایکسپریس ایک سو بیالیس منٹ کی تھی۔ اس فلم کی پکڑ ناظرین پر واقعی بہت مضبوط تھی۔ جس کا فائدہ اس فلم کو ملا۔ لیکن ایسی فلمیں بار بار نہیں بنتی۔ اس لئے اب صرف ناظرین کی ترجیح کو نظر میں رکھ کر فلمیں بنائی جا رہی ہیں تاکہ کم وقت میں ناظرین کو پورا تفریح کا سامان دیا جا سکے۔ کیونکہ اب کمزور کہانی والی فلمیں دیکھنے کے لئے ناظرین کے پاس زیادہ وقت بھی نہیں ہے۔