مشرقی ایشیائی ممالک میں تلی ہوئی مونگ پھلی کم ہی کھائی جاتی ہے۔برطانیہ کی آکسفرڈ یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق کچی مونگ پھلی کے مقابلے تلی ہوئی مونگ پھلی زیادہ حساس یا الرجی پیدا کرنے والی ہو سکتی ہے۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ تلی ہوئی مونگ پھلی سے جسم کا مدافعتی نظام عروج پر پہنچ سکتا ہے جس سے مزید الرجی والا ردعمل رونما ہو سکتا ہے۔یہ تحقیق ابھی چوہوں پر کی گئی ہے اور سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انسانوں کے لیے تلی ہوئی مونگ پھلی ترک کرنے کی بات کہنے سے قبل مزید تحقیقات درکار ہے۔یہ تحقیق ’الرجی اینڈ کلینیکل امیونولوجی‘ نامی جریدے میں شائع ہوئی ہے۔چوہوں کو پیٹ اور جلد کے ذریعے مونگ پھلی کا پروٹین دیا گیا اور جنھیں سوکھی تلی ہوئی مونگ پھلی دی گئی ان کے قوت مدافعت نے زیادہ زوردار ردعمل ظاہر کیا اور معمول کے برخلاف رد عمل دیکھنے میں آیا۔مختلف انسانوں میں قوت مدافعت کا رد عمل مختلف ہوتا ہے۔ کچھ ہلکے ہوتے ہیں اور ان میں صرف نشان یا دھبے پڑجاتے ہیں لیکن بعض بہت خطرناک ہوتے ہیں اور منھ کے سوجنے اور سانس لینے میں مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے اونچے درجے حرارت پر تلنے کی وجہ سے مونگ پھلی میں جو کیمیائی تغیرات پیدا ہوتے ہیں اس کے
نتیجے میں الرجی والا رد عمل سامنے آتا ہوگا۔مونگ پھلی کھانوں میں الرجی پیدا کرنے کا بڑا موجب ہے۔ریسرچ ٹیم کے سربراہ پروفیسر کوئنٹین سیٹنٹاؤ نے کہا: ’پہلی بار ہمارے سامنے مونگ پھلی کا الرجی سے براہ راست رشتہ سامنے آیا ہے۔‘اس کے تحت تحقیق کرنے والے یہ امید کرتے ہیں کہ مشرقی ایشیا کے باشندوں میں الرجی کی شرح کم ہونے کی وجہ معلوم ہو سکے گی کیونکہ وہاں تلی ہوئی مونگ پھلی کے بجائے کچی، ابلی اور بھنی ہوئی مونگ پھلی کا زیادہ رواج ہے۔اس کے ساتھ ہی انھوں نے واضح کیا ہے کہ ابھی اس بارے میں مزید تحقیق کی ضروت ہے قبل اس کے کہ ڈاکٹر اس بابت کوئی مشورہ دیں۔پروفیسر سیٹنٹاؤ نے کہا: ’ہمیں معلوم ہے کہ الرجی والے گھروں میں بچوں کو دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ مونگ پھلی سے بھی الرجی ہو سکتی ہے۔’بہر حال ابھی یہ تحقیق ابتدائی دور میں ہے اور ابھی سے تلی ہوئی مونگ پھلی سے بچنے کی کوشش قبل از وقت چیز ہوگی۔‘سائنسدان اب مخصوص کیمیائی تغیر سے نجات حاصل کرنے والے طریقوں کی تلاش میں ہیں جن سے قوت مدافعت بیدار ہو جاتی ہے۔مونگ پھلی کھانوں میں الرجی پیدا کرنے کا بڑا موجب ہے۔