امرتسر(بھاشا) امرتسر کی تنگ اور بھیڑ بھاڑ والی سڑکوں پر ہر کونے سے آنے والی کھانے کی خوشبوں کو نظر انداز کرنا مشکل ہے اورایس معقول جگہ پر مشہور شیف وکاس کھنہ نے حال ہی میں اپنی نئی کتاب ’امرتسر فیلورس آف دی گولڈن سٹی‘ پیش کی ہے۔ اس کے کتاب میںامرتسر کی گلیوں میں بنائے جانے والے دیسی کھانوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ گول گول پوریوں سے لے کر مسالے دار چھولے اور امرتسری قلچے، تلے ہوئے چکن سے لے کرمشہور امرتسری مچھلی، نرم گلابجامن سے لے کر گھی میں ڈوبا ہوا حلوا، کراری جلیبی سے لے کرملائی والی لسی اور ہر کسی کو پسند
آنے والے کھانے دستیاب ہیں اپنی اس ۱۶ویں کتاب میں شیف نے اپنے آبائی شہر کی تاریخ اور تہذیب کو پیش کیاہے۔
اس کے علاوہ انھوں نے اس میں اپنی دادی ماں،قریبی رشتے داروں کے نسخے اور یہاں عرصہ دراز سے لذیذ غذائیں بنانے والی دکانوں کے بارے میں بھی لکھا ہے۔ پنجاب کے محکمے سیاحت کے ساتھ مل کر شیف نے امرتسر کے کھانے کی جگہوں کی فہرست اور ایک غذائی سفر کا اہتمام کیا تاکہ سنہرے شہر کو غذائی سیاحت کے لحاظ سے مقبول عام بنایا جائے۔کھنہ نے یہاں پہلے غذائی سفر کی قیادت کی جس میں سورن مندر کا لنگر بھی شامل تھا اس کے بعد ذائقہ کے تلاش میں نکلا یہ دستہ اس شہر ڈھابوں، ہوٹلوں اور رستراں میں بھی گیا جن میں واگھا سرحد سے ملحق رستراں بھی شامل ہیں۔
کھنہ نے کہا کہ یہ میرے لئے فخر کی بات ہے کہ پنجاب محکمے سیاحت نے ہمارا ساتھ دیا۔ ہندوستان میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا اس لئے ریاست اب اپنی خصوصی ڈیشوں پر توجہ مرکوز کررہی ہے۔ پنجاب کا کھانا اس کی سب سے بڑی وراثت ہے ہم کھانے کیلئے جیتے ہیں۔ کھنہ نے کہا کہ یہ پہلی ریاست ہے جس میں غذائی سفر شروع کیاہے۔غذائی سیاحت کاآغاز امرتسر سے شروع ہوا ہے جو پوری دنیا کی غذائی راجدھانی ہے۔