ہم سب ہی ڈزنی کی طلسماتی کہانیاں دل و جان سے پسند کرتے ہیں- بچپن گزر جانے کے باوجود ہم اب بھی پرنس علی پر مرتے ہیں، ‘دی لائن کنگ’ دیکھ کر آج بھی ہماری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں اور شہزادی ایریل کی طرح کھانے کے کانٹے سے ہم سب نے ہی اپنی زلفیں سلجھائی ہونگی-
سونم کپور اور فواد خان کی یہ فلم، عصر حاضر کی پریوں کی کہانی ہے جس میں لڑکی ایک لڑکے سے ملتی ہے- لڑکی کو لڑکا کسی مینڈک کے مانند لگتا ہے جبکہ لڑکے کے لئے لڑک
ی ناقابل برداشت ہے- لڑکی، مینڈک کو ایک بوسہ دیتی اور کسی جادو کی طرح مینڈک خوابوں کے شہزادے میں تبدیل ہو جاتا ہے-
خوبصورت حقیقت میں ایک رومانٹک کامیڈی ہے اور اس میں ڈزنی کا کوئی ہاتھ نہیں- فلم کا نام خوبصورت کیوں رکھا گیا اس کا جواب ملنا مشکل ہے-
فلم کی کہانی پرانی اور ایسی کئی طلسماتی کہانیاں ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں لیکن اسے اس خوبصورتی کے ساتھ سجایا، بنایا اور چمکایا گیا ہے کہ آپ اسے دیکھنے کے لئے مجبور ہو جاتے ہیں، فلم نتیجتاً حیران کن حد تک ایک اچھی تفریح ثابت ہوئی ہے-
ایک موقع پر ملی (سونم کپور)، وکرم (فواد خان) کو بتاتی ہے کہ وہ ایک شہزادے جیسا کہیں سے نہیں دکھتا- یہ کئی ایسے موقعوں میں سے ایک ہے جس میں دیکھنے والوں کو ملّی کی دماغی حالت مشکوک نظر آتی ہے-
فواد خان، کڑوی کسیلی ملّی کے برعکس ایک میٹھی گولی ہیں- شاہانہ، قاتلانہ حد تک دلکش اور خوش مزاج- سیاہ بالوں والا، لمبا چوڑا شہزادہ وکرم یقیناً ایک خوابوں کا شہزادہ ہے، جس کا خواب ہر لڑکی دیکھتی ہے-
بولی وڈ یقیناً اس ہیرو کو اپنے پاس رکھنا چاہے گا، کیونکہ اس نے تمام رنویروں اور رنبیروں کو مات دے دی ہے- لیکن بولی وڈ والوں کو بڑے افسوس کے ساتھ بتانا پڑتا ہے کہ یہ شہزادہ ہمارا ہے آپ اپنے لئے کوئی اور خان ڈھونڈ لیں جو سلمان، شاہ رخ اور عامر خان کی گدی پر بیٹھ سکے-
سپورٹنگ کرداروں کے درمیان بہترین کیمسٹری دکھائی گئی ہے، یہی حال مرکزی کرداروں کے بیچ بننے والے کنکشن کا ہے- کہانی جو محض ایک نگاہ غلط سے شروع ہوتی ہے بتدریج ایک مضبوط اور جذباتی لگاؤ میں تبدیل ہوتی چلی جاتی ہے، جب بھی فواد اور سونم ایک ساتھ سکرین پر نظر آتے ہیں تو دیکھنے والے بے اختیار ان کی محبّت میں ڈوب جاتے ہیں اور باوجود اس کے کہ دونوں ہی فلم میں ایک دوسرے سے سراسر مختلف ہیں ان کے لے نیک تمنائیں رکھتے ہیں-
ڈائریکٹر ششانکا گھوش نے نہایت سمجھداری کے ساتھ ایک دوسرے سے متعلق جذبات کے اظہار کیلئے کرداروں کی خود کلامی کو استعمال کیا ہے-
یہی وہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جن کی وجہ سے یہ فلم عصر حاضر کی لو سٹوری کہی جاسکتی ہے جس کا خوشیوں بھرا اختتام کسی چمکتے دمکتے محل میں نہیں ہوتا بلکہ اس اظہار کے ساتھ ہوتا ہے کہ، ‘تم جیسے بھی ہو، جو بھی ہو مجھے تم سے محبّت ہے’-
‘خوبصورت’ کی ٹیگ لائن میں ‘دی رائل مس فٹ ‘ لکھا ہوا ہے- مس فٹ غلط نہیں لیکن میرے خیال سے فلم کی مارکیٹنگ ٹیم کا اشارہ سونم کی طرف نہیں تھا یا ہو بھی سکتا ہے- انہوں نے ایک ناگوار ملّی کا بھرپور کردار ادا کیا ہے- ان کی اداکاری اتنی قدرتی ہے کہ دیکھنے والے یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ آیا وہ اداکاری کر بھی رہی ہیں یا نہیں؟ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ اداکاری بالکل نہیں ہے-
اصل میں سونم فقط شہزادی کپور ہیں جو پوری فلم پر چھائی رہیں-
سماجی میل ملاپ میں ملّی کو اس حد تک کورا دکھایا گیا ہے کہ دیکھنے والے سوچتے ہیں کیا واقعی ملّی کا کردار ایک من موجی لڑکی کا ہے یا کسی دیوانی کا- انہوں نے احمق سی ملّی کا کردار کچھ زیادہ ہی شوق سے ادا کیا ہے-
شروع میں ملّی کی طرف پرنس وکرم کی ناگواری سے یوں لگتا ہے جیسے فواد اداکاری کر ہی نہیں رہے- ہم یہ سوچ کر رہ جاتے ہیں کہ ملّی کے کردار میں ایسا کیا جادو ہے جو صرف اسی وقت جاگتا ہے جب وہ پرنس وکرم یا اپنی ماں، منجو (کرن کھیر) کے مقابل ہوتی ہیں- حالانکہ کرن کھیر اپنے کردار میں کچھ نیاپن تو نہیں لاسکیں لیکن اس کے باوجود ان کا کردار پرمزاح اور قابل ستائش ہے-
فیشن اسٹائل یا تو بوہیمین اور فنکارانہ ہوتا ہے یا پھر کلر بلائنڈ- ملّی کا فیشن آخرالذکر کی کیٹگری میں آتا ہے- ‘آئشہ’ میں سونم کو پسند کیا گیا کیوں کہ اس میں وہ خاصی اسٹائلش رہیں لیکن ‘خوبصورت’ میں ان کا وارڈروب ہولناک ہے-
ضرورت سے زیادہ سونم کو اگر ایک طرف رکھ کر دیکھا جاۓ تو پوری فلم میں آپ مسکراتے رہیں گے اور یہ مسکراہٹ اور بھی بڑھ جاۓ گی جب اختتام میں کریڈٹس آنا شروع ہونگے-
اپنے مزاحیہ خیز کرداروں، متوقع پلاٹ اور اسٹیریو ٹائپنگ کے باوجود فلم شوخ اور رومانٹک ڈرامہ ہے، جسے آپ باآسانی ڈزنی کی طلسماتی کہانی کہہ سکتے ہیں- یہ ایک ایسی کہانی ہے جسے آپ اپنی کہانی بنانا چاہیں