ڈاکٹر مہیندر سنگھ سوڈھا
اعلیٰ تعلیم میں معیار بہت اہمیت رکھتا ہے اور آج ہمارے سامنے یہ بڑاچیلنج ہے کہ آنے والے وقت میں بین الاقوامی سطح کی یونیورسٹی تیار ہوسکیں اور ان میں اعلیٰ معیار کی تعلیم
فراہم کرئی جا سکے۔ لیکن موجودہ حالات کے مدنظر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہم اس فریضے کو ادا کر پا رہے ہیں۔
آ اساتذہ میں اعتماد کی کمی آگئی ہے وہ اپنے پیشے سے ایمانداری نہیں کر رہے۔جب بچہ محنت سے انٹر میں کامیاب ہو کر آیا ہے اورگریجویٹ بننے کا خواہشمند ہے تو اسے اپنے حدف کو حاصل کرکے کے لئیرہنمائی کی جانی چاہئے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ یونیورسٹی کا طالب علم بننے کے بعد اسے معلوم ہوتا ہے کہ کئی پروفیسر کلاس ہی نہیں لیتے اور کچھ ہی پروفیسر کتاب سے پڑاتے ہیں۔ حصول علم کے پیاسے طالب علم کو یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے اور دھیرے دھیرے اس میں علم حاصل کرنے کا جوش ختم ہونے لگتا ہے اور کتابوں کی جگہ کنجیاں لے لیتی ہیں۔ اگر ہم ہونہار بچوں کی رہنمائی نہیں کرسکتے تو کم سے کم اسکے جوش کو ٹھیس تو نہ پہنچائیں۔ یونیورسٹی کے ہونہار طلباء کوٹیچر اسسٹنٹ بناکر کلاس میں پڑھانے کا موقع دیں ۔ آئی آئی ٹی اورکئی یونیورسٹی میں اس سے بہتریں نتائج سامنے آئے ہیں۔ اس سے ان طلباء میں پڑھانے اور رسرچ کرنے کا ہنر آئے گا اور وہ مستقبل میں بہتر علمی فرائض انجام دیگا۔
یونیورسٹی کا کام طلباء کو عالم اور باہنر بنانا ہے لیکن موجودہ حالات میں وہ صرف پڑھے لکھے بے روزگار بن رہے ہیں۔یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ سے اگر کہئے کہ ایک ڈرافٹ تیار کردے تو اس میں ڈھیرساریغلطیاں ہوتیہیں۔ پروفیسروں کے ذریعہ رسرچ میں چوری کے معاملہ نے بھی یونیورسٹی کی عزت کو دائوں پر لگا دیا ہے۔رسرچ میں چوری کوناقابل تلافی جرچ قرار دے کر اس میں ملوث تمام اساتذہ کو فوری طور پر برخاست کر دینا ہی بہتر ہے۔ایسے فیصلے اس جرم کو روکنے میں کارگر ثابت ہوں گے۔اس کی جانچ کے لئے باراز میں کئی طرح کے کمپیوٹر صافٹویر موجود ہیں جن کی مدد لینی چاہئے۔
میرے خیال سے یونیورسٹیوں کے پاس وسائل کی کمی ہے لیکن انتظامیہ کو اس کا رونا رونے کے علاوہ اس بات پر بھی غور وفکر کرنا چاہئے کہ دستیاب وسائل کا بہتر سے بہتراستعمال کس طرح کیا جاسکتا ہے۔ساتھ ہی یوجی سی اور حکومت کو بھی ’’کم امداد اورزیادہ کنٹرول‘‘ کے فارمولے کو چھوڑکر تعلیمی اداروں کو آزادی دینی ہوگی۔روڈ ٹریفک پر تعنات پولیس مین راہگیروں کوصرف ہدایات دیتا ہے انکی گاڑی پر بیٹھ کر راستا بتانے نہیں جاتا۔یونیورسٹی انتظامیہ کو آزادی دینا ضروری ہے تاکہ بہترموقع کا فائدہ اٹھا سکیں جیسے اگر کسی بین الاقوامی سطح کے ماہر سے روبرو ہوں تو انھیں آفر کر سکیں ۔اس طریقہ سے کئی یونیورسٹی کے طلباء کو ماہرین کی علمی رہنمائی حاصل ہوگی اور ادارہ کا تعلیمی معیار بھی اعلیٰ ہوگا۔
پروفیسر مہیندر سنگھ سوڑھا بین الاقوامی سطح کے ماہر توانائی ہیں اور لکھنؤ یونیورسٹی، دیوی اہلیابائی یونیورسٹی(اندور)، برکت اللہ یونیورسٹی (بھوپال)کے وائس چانسلراور آئی آئی ٹی دہلی کے ڈپٹی ڈائرکٹررہ چکے ہیں۔