برازیل میں سنہ ۱۹۸۱میں ۲۰سال کے وقفے کے بعد ڈینگو وائرس دوبارہ سامنے آیا تھا اور اس کے بعد کے ۳۰سال کے دوران اس وائرس کے نتیجے میں ۷۰لاکھ افراد متاثر ہوئے۔برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں محققین نے ڈینگو بخار کی روک تھام کے لیے مخصوص بیکٹریا سے متاثرہ ہزاروں مچھروں کو شہر میں چھوڑا ہے۔محققین پرامید ہیں کہ افزائش نسل کے بعد ان مچھروں کی تعداد دوسرے مچھروں سے زیادہ ہو جائے گی اور اس
سے ڈینگو بیماری کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔
اس نوعیت کے اقدامات پہلے ہی آسٹریلیا، ویت نام اور انڈونیشیا میں کیے جا رہے ہیں۔برازیل میں اس منصوبے کے مرکزی تحقیقاتی ادارے فیئرکروز انسٹیٹیوٹ کے اہلکار لوسیانو موریرا کے مطابق یہ پروگرام سنہ ۲۰۱۲میں شروع کیا گیا تھا۔انھوں نے کہا کہ ان کی ٹیمیں ہر ہفتے ریو کے چار مخصوص علاقوں میں مچھروں کو خصوصی پھندے کے ذریعے پکڑنے کے بعد ان کا تجزیہ کرتے رہے۔
لوسیانو موریرا نے بتایا کہ ولباکیا نامی بیکٹریا تقریباً ۶۰فیصد حشرات میں پایا جاتا ہے اور یہ ایسے مچھروں کے لیے ویکسین کا کام کرتا ہے جن میں ڈینگو وائرس پایا جاتا ہے اور ان میں ڈینگو وائرس کے بڑھنے کے عمل کو روکتا ہے۔اس منصوبے کے تحت چار ماہ تک ماہانہ دس ہزار مچھروں کو چھوڑا جائے گا اور اس کے تحت ریو کے شمالی علاقے ٹوبیکانگا میں ۱۰؍ہزار مچھروں پہلی کیپ چھوڑ دی گئی۔
انھوں نے بتایا کہ ولباکیا نامی بیکٹریا تقریباً ۶۰فیصد حشرات میں پایا جاتا ہے اور یہ ایسے مچھروں کے لیے ویکسین کا کام کرتا ہے جن میں ڈینگو وائرس پایا جاتا ہے اور ان میں ڈینگو وائرس کے بڑھنے کے عمل کو روکتا ہے۔اس کے علاوہ یہ بیکٹریا مچھروں کی افزائش نسل پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ اگر نر اور مادہ مچھر اس بیکٹریا سے متاثر ہوتے ہیں یا صرف مادہ مچھر اس سے متاثرہ ہوتی ہے تو اس صورت میں آئندہ آنے والی تمام نسلوں میں ولباکیا بیکٹریا موجود ہو گا۔
اس بیکٹریا پر سنہ ۲۰۰۸میں آسٹریلیا کی موناش یونیورسٹی میں تحقیق شروع ہوئی تھی۔برازیل میں سنہ ۱۹۸۱میں ۲۰سال کے وقفے کے بعد ڈینگو وائرس دوبارہ سامنے آیا تھا اور اس کے بعد کے ۳۰سال کے دوران اس وائرس کے نتیجے میں۷۰لاکھ افراد متاثر ہوئے جبکہ سنہ ۲۰۰۹سے سنہ ۲۰۱۴تک برازیل میں ڈینگو بخار سے ۳۲لاکھ افراد متاثر ہوئے جن میں سے آٹھ سو کی موت واقع ہو گئی۔