صدر اوباما کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے انہترویں اجلاس سے خطاب کے کلیدی اقتباسات
صدر اوباما: جناب صدر، جناب سیکرٹری جنرل، مندوبین ساتھیو، خواتین و حضرات، ہم جنگ اور امن کے درمیان، انتشار اور یکجہتی کے درمیان؛ خوف اور امید کے درمیان ایک دوراہے پر اکٹھے ہو گئے ہیں۔
دنیا بھر میں ترقی کے سنگہائے میل ہیں۔ اِس ادارے کے قیام کے وقت چھایا ہوا عالمی جنگ کا سایہ ہٹا دیا گیا ہے اور بڑی طاقتوں کے درمیان جنگ کا امکان کم ہوگیا ہے۔ رُکن ممالک کی صفیں تین گنا سے زیادہ ہو گئی ہیں اور زیادہ لوگ ایسی حکومتوں کے تحت رہ رہے ہیں جنہیں اُنہوں نے منتخب کیا ہے۔ سینکڑوں ملین انسانوں کو غربت کی جیل سے آزاد کرالیا گیا ہے جس سے انتہائی غربت میں رہنے والوں کے تناسب کو نصف کردیا گیا ہے۔ اور ہماری زندگیوں کے بدترین مالی بحران کے بعد عالمی معیشت کا مضبوط ہوتے جانا جاری ہے ۔ ۔ ۔
*****
اور پھر بھی ہماری دنیا میں ہر سُو بےچینی پھیلی ہوئی ہے۔ ایک ایسا احساس کہ اُنہی قوتوں نے جنہوں نے ہمیں اکٹھا کیا تھا، نئے خطرات پیدا کردیے ہیں، اور کسی واحد قوم کا عالمی قوتوں سے اپنے آپ کو بچا کر رکھنا، مشکل بنا دیا ہے۔ ایسے میں جب ہم یہاں اکٹھے ہوئے ہیں ایبولا کی وباء مغربی افریقہ کے صحت کے نظاموں پر غالب آرہی ہے اور اِس وباء کا سرحدوں کے پار تیزی سے پھیلنے کا خطرہ ہے۔ یورپ میں روسی جارحیت اُن دنوں کی یاد دلاتی ہے جب بڑی قومیں علاقائی خواہشات کے حصول کی خاطر چھوٹی قوموں کو پاؤں تلے روند ڈالتی تھیں۔ شام اور عراق میں دہشت گردوں کی بربریت ہمیں تاریکی کے دل میں دیکھنے پر مجبور کرتی ہے۔
اِن مسائل میں سے ہر ایک مسئلہ فوری توجہ کا متقاضی ہے۔ لیکن یہ سب ایک وسیع تر مسئلے کی علامات بھی ہیں ۔ ۔ یعنی ہماری باہمی منسلک دنیا کی رفتار سے مطابقت رکھنے میں ہمارے نظام کی ناکامی۔ ہم نے اجتماعی طور پر ترقی پذیر ممالک کی صحت عامہ کی صلاحیتوں میں مناسب طریقے سے سرمایہ کاری نہیں کی۔ جب ایسا کرنا تکلیف دہ ہوتا تھا تو ہم کئی مرتبہ بین الاقوامی اصولوں کو نافذ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اور ہم نے مناسب قوت سے عدم برداشت، فرقہ واریت اور ناامیدی کا سامنا نہیں کیا جس سے دنیا کے بہت سے حصوں میں متشدد انتہا پسندی کو تقویت ملی ہے۔
مندوب ساتھیو، متحدہ قوموں کے طور پر ہم ایک انتخاب کرنے کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں۔ ہم اُس بین الاقوامی نظام کی تجدید کرسکتے ہیں جس نے ہمیں اتنی ترقی کرنے کے قابل بنایا، یا ہم عدم استحکام کی پوشیدہ لہر کو اپنے آپ کو پیچھے دھکیلنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔ ہم عالمی مسائل کا سامنا کرنے کی اپنی اجتماعی ذمہ داری کا سامنا کرنے کا اعادہ کرسکتے ہیں یا عدم استحکامی کے فسادوں سے زیادہ سے زیادہ مغلوب ہو سکتے ہیں۔
اور امریکہ کے لئے، انتخاب بڑا واضح ہے۔ ہم خوف کی بجائے امید کا انتخاب کرتے ہیں۔ ہم مستقبل کو کسی ایسی چیز کے طور پر نہیں دیکھتے جو ہمارے اختیار سے باہر ہے بلکہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کی بھلائی کی خاطر، ہم ٹھوس اور اجتماعی کوشش کے ذریعے صورت سازی کرسکتے ہیں۔ جب انسانی معاملات کی بات ہوتی ہے تو ہم تقدیر پرستی یا کلبیت کو مسترد کرتے ہیں۔ ہم ایسی دنیا کے لئے کام کرنے کا انتخاب کرتے ہیں جس طرح کہ اِسے ہونا چاہیے، جس طرح کہ ہمارے بچے اِس کے مستحق ہیں۔ ۔ ۔ ۔
*****
یہ ہمارے عالمی زمانے کے ایک مرکزی سوال سے مخاطب ہوتا ہے ۔ ۔ کہ آیا ہم اپنے مسائل ایک باہمی دلچسپی اور باہمی احترام کی روح سے اکٹھے ہوکر حل کریں گے یا ہم ماضی کی تباہ کن دشمنیوں میں پھنس کر رہ جائیں گے۔ جب قومیں ایسی مشترکہ توجیح تلاش کرلیتی ہیں جس کی بنیاد صرف طاقت پر نہیں ہوتی بلکہ اصولوں پر ہوتی ہے تو پھر ہم بے پناہ ترقی کرسکتے ہیں۔
*****
اگر ہم اپنی سرحدوں سے باہر نظریں اٹھا کر دیکھیں، اگر ہم عالمی طور پر سوچیں اور اگر ہم تعاون سے کام کریں، تو ہم اِس صدی کی اسی طرح صورت گری کرسکتے ہیں جس طرح کہ دوسری عالمی جنگ کے زمانے کے بعد ہمارے پیشرو کر چکے ہیں۔
لیکن جب ہم مستقبل پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک قضیہ ایسا ہے جس سے تصادم کے ایک چکر کا خطرہ ہے جوہماری اتنی ساری ترقی کو پٹڑی سے اتار سکتا ہے، اور یہ، متشدد انتہا پسندی کا سرطان ہے جس نے مسلم دنیا کے بہت سارے حصوں میں تباہی مچا دی ہے۔ ۔ ۔
*****
ہم تہذیبوں کے تصادم کے کسی بھی نظریے کو مسترد کرتے ہیں۔ مستقل مذہبی جنگ کا عقیدہ اُن اِنتہاپسندوں کی ایک گمراہ کن پناہ گاہ ہے جو کوئی چیز تعمیر یا تخلیق نہیں کرسکتے اور اسی لئے گلی گلی مذہبی تعصب اور نفرت بیچتے پھرتے ہیں۔ اور یہ کہنے میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ انسانیت کا مستقبل ہمارے اُن لوگوں کے خلاف متحد ہونے میں ہے جو ہمیں قبیلے یا فرقے؛ نسل یا مذہب کی ناقص بنیادوں پر تقسیم کرتے ہیں۔ ۔ ۔
*****
بین الاقوامی برادری کے طور پر ہمیں اِس چیلنچ کا مقابلہ کرنے کے لئے چار شعبوں پر توجہ مرکوز کرنا چاہیے۔ پہلے، داعش نامی دہشت گرد گروہ کو ہرگز کمزور اور بلاآخر تباہ کرناچاہیے۔ ۔
*****
کوئی خدا اِس دہشت کو معاف نہیں کرتا۔ کوئی شکایت ان کاموں کا جواز نہیں مہیا کرتی۔ اِس قسم کی برائی کے ساتھ کوئی استدلال، کوئی گفت وشنید نہیں ہوسکتی۔ اِس طرح کے قاتلوں کو صرف ایک زبان سمجھ آتی ہے اور یہ ہے طاقت کی زبان۔ لہذا ریاستہائے متحدہ امریکہ موت کے اِس نیٹ ورک کو ختم کرنے کے لئے ایک وسیع اتحاد کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔
اِس کوشش میں ہم اکیلے کاروائی نہیں کررہے اور نہ ہی ہمارا امریکی فوجیوں کو بھیج کرغیر ممالک پر قبضہ کرنے کا ارادہ ہے۔ اِس کی بجائے ہم عراقیوں اور شامیوں کی اپنی بستیوں کو واپس لینے میں مدد کریں گے۔ ہم اپنی فوجی قوت، داعش کو ختم کرنے کی فضائی حملوں کی ایک مہم میں استعمال کریں گے۔ ہم اِن دہشت گردوں سے زمین پر لڑنے والی قوتوں کو تربیت دیں گے اور اُنہیں ساز و سامان سے لیس کریں گے۔ ہم اِن کی مالی رسد کو منقطع کرنے اور خطے میں جنگجوؤں کی آمد اور خروج کو روکنے کے لئے کام کریں گے۔ اور پہلے ہی 40 سے زائد اقوام اِس اتحاد میں شامل ہونے کی پیشکش کر چکی ہیں۔ ۔ ۔
*****
دوسرا: یہ وقت ہے کہ دنیا اور بالخصوص مسلمان کمیونٹیاں، واضح طور پر، پوری قوت اور تسلسل سے القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں کے نظریے کو مسترد کریں۔
تمام عظیم مذاہب کے کاموں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ پارسا عقیدے کو ایک جدید اور کثیرالثقافتی دنیا سے ہم آہنگ کریں۔ کوئی بچہ نفرت لے کر پیدا نہیں ہوتا اور کسی بچے کو کہیں بھی دوسرے لوگوں کو نفرت کرنے کی تعلیم نہیں دینا چاہیے۔ ۔ ۔
*****
داعش یا القاعدہ یا بوکوحرام کا نظریہ کمزور ہو گا اور اپنی موت آپ مر جائے گا اگر اِسے تسلسل سے بے نقاب کیا جائے اور اِس کا کُھلے عام سامنا کیا جائے اور اِسے مسترد کیا جائے۔
تیسرا، ہمیں تصادم کے چکر سے نمٹنا چاہیے ۔ ۔ خاص طور پر فرقہ وارانہ تصادم ۔ ۔ ایسے حالات پیدا کرتا ہے جس سے دہشت گرد فائدہ اُٹھاتے ہیں۔
*****
یہ وقت ہے کہ سیاسی، شہری اور مذہبی رہنماء فرقہ وارانہ کشیدگی کو مسترد کریں۔ لہذا آئیے اِس بات پر واضح ہوں: یعنی یہ ایک ایسی جنگ ہے جسے کوئی نہیں جیت رہا۔ ۔ ۔
میرا چوتھا اور آخری نکتہ ایک سادہ سا نکتہ ہے: کہ عرب اور مسلمان دنیا کے ممالک کو ہر گز اپنے عوام کی صلاحیتوں پر توجہ مرکوز کرنا چاہیے ۔ ۔ یعنی بالخصوص نوجوانوں پر۔
اور یہاں میں دنیا بھر کے نوجوان مسلمانوں سے براہِ راست بات کرنا چاہوں گا۔ آپ ایک عظیم روایت کے امین ہیں جو تعلیم کا پاس کرتی ہے، نہ کہ جہالت کا؛ اختراع کا، نہ کہ تباہی کا؛ زندگی کے وقار کا، نہ کہ قتل کا۔ وہ جو آپ کو اِس راستے سے ہٹنے کے لئے کہہ رہے ہیں وہ اِس روایت کا دفاع نہیں بلکہ اِس سے دھوکہ کررہے ہیں۔
آپ نے عملی طور پر یہ ثابت کیا ہے کہ جب نوجوان لوگوں کے پاس کامیاب ہونے کے وسائل ہوتے ہیں ۔ ۔ یعنی اچھے سکول، ریاضی اور سائنس میں تعلیم، ایک ایسی تعلیم جس سے تخلیق اور کاروباریت پروان چڑھے ۔ ۔ تو پھر معاشرے پھلتے پھولتے ہیں۔ لہذا امریکہ اُن لوگوں کے ساتھ شراکت داری کرے گا جو اِس نظریے کو فروغ دیں گے۔
جہاں خواتین ملک کی سیاست یا معیشت میں مکمل طور پر شریک ہوتی ہیں وہاں معاشروں کے کامیاب ہونے کے روشن امکانات ہوتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے ہم خواتین کی پارلیمانوں اور امن کے عملوں، سکولوں اور معیشت میں شرکت کی حمایت کرتے ہیں۔
اب آخرِکار، فرقہ واریت کو مسترد کرنا اور انتہاپسندی کو مسترد کرنا، ایک نسل بھر کا کام ہے ۔ ۔ ایسا کام جو مشرق وسطٰی کے لوگوں کوخود کرنا ہے۔ کوئی بیرونی طاقت دِلوں اور ذہنوں میں تبدیلی نہیں لاسکتی۔ مگر امریکہ ایک مودب اور تعمیری شراکت دار ہوگا۔
امریکہ یہی کام ہے جو کرنے کے لئے تیار ہے: کہ فوری خطرات کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے ایک ایسی دنیا کے لئے بھی کام کرتا جائے جہاں اس قسم کی کاروائیوں کی ضرورت معدوم ہو جائے۔ امریکہ اپنے مفادات کا دفاع کرنے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے گا، اور ہم اِس ادارے کے وعدے اور اِس کے انسانی حقوق کے عالمی منشور سے بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔ ۔ یعنی یہ تصور کہ امن محض جنگ نہ ہونے کا نام ہی نہیں ہے بلکہ امن بہتر زندگی کے وجود کا نام ہے۔
*****
اور اِس دوراہے پر میں آپ سے وعدہ کرسکتا ہوں کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ اُس کام سے اِدھر اُدھر نہیں ہوگا یا خوفزدہ نہیں ہوگا جو ہمیں ضرور کرنا چاہیے۔ ہم آزادی کی میراث کے فخر مند وارث ہیں اور ہم آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے اِس میراث کو محفوظ رکھنے کے لئے جو کچھ ضروری ہوُا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ میرا آپ سے کہنا ہے کہ ہمارے اِس مشترکہ مشن میں ہمارے ساتھ آج کے بچوں اور کل کے بچوں کی خاطر شامل ہوں۔
***