عراق اور شام میں سیاسی بحرانوں کا خاتمہ بھی ضروری ہے
امریکی صدر اوباما نے اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ امریکی حساس ادارے داعش سے لاحق خطرات کا درست اندازہ کرنے میں ناکام رہے تھے۔ اسی وجہ سے
جنگ زدہ شام میں عسکریت پسندوں کو جڑ پکڑنے کا موقع مل گیا۔
صدر اوباما نے ”سی بی ایس” سے اپنے انٹرویو کے دوران عراق اور شام کو دنیا بھر کے عسکریت پسندوں کے لیے زیرو گراونڈ کا نام دیا جہاں پر القاعدہ کے جنگجو امریکا اور عراقی افواج کے ہاتھوں نکالے جانے کے بعد پھیل گئے ہیں۔
امریکی صدر نے کہا ” میرے خیال میں ہمارے انٹیلی جنس کے سربراہ جم کلیپر نے تسلیم کیا ہے کہ وہ اسے سمجھ نہ پائے کہ شام میں کیا ہونے جا رہا ہے۔ ”
اوباما نے نے اس اعتراف کے ساتھ ساتھ یہ بھی تسلیم کیا کہ امریکی تربیت یافتہ عراقی افواج کی صلاحیت اور حوصلے کے بارے میں بڑھ کر اندازہ لگایا گیا کہ وہ داعش کے لیے کافی ہیں۔” اباما نے ان دو حقیقتوں کے اعتراف کے حوالے سے کہا ”یہ دونوں سچ ہیں کہ ہم سے غلطی ہوئی۔”
انہوں نے داعش کے پروپیگنڈہ کرنے والوں کے بارے میں کہا ” وہ سوشل میڈیا کا بڑی سمجھداری سے استعمال کر رہے ہیں اور نئی بھرتیوں میں بھی کامیاب ہو رہے ہیں، اس حوالے سے امریکا، آسٹریلیا، یورپ اور مسلمانوں کی اکثریت کا حامل ملکوں میں جو بھی ان کے جہاد کو مانتا ہے بھرتی ہو رہا ہے۔ ”
جب صدر اوباما نے امریکی قیادت میں عراق پر فضائی حملے شروع کیے تو کہا تھا ” تاکہ داعش کا خاتمہ کر سکیں” اس وقت اس امر کا انکار کیا تھا کہ داعش بڑے علاقے یا وسائل پر قابض ہے۔ انہوں نے اس کا بھی انکار کیا کہ شام میں القاعدہ سے منسلک عسکریت پسند گروپ کے خلاف مہم اقوام متحدہ کی طرف سے جنگی جرائم کے الزام یافتہ بشارالاسد کی مدد گار بن رہی ہے۔
صدر نے کہا ” میں تسلیم کرتا ہوں کہ تضادات کی سرزمین اور متضاد ماحول کی وجہ سے ہمارے ہاں بھی تضاد آیا ہے ہے، لیکن یہ واضح کروں گا کہ ہم بشارالاسد حکومت کو مضبوط کرنے نہیں جا رہے ہیں کہ اس کی حکومت نے تو خوفناک مظالم کیے ہیں۔”
واضح رہے امریکی کمانڈر انچیف نے یہ کہا ” داعش کے خلاف جنگ امریکی مفاد میں ہے، کیونکہ یہ صرف دہشت گرد نہیں ہیں بلکہ دہشت گردوں کی دوہری نسل ہے۔”
امریکی صدر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا داعش کا مخالف صرف امریکا نہیں بلکہ امریکی قیادت میں پوری بین الاقوامی برادری ہے جو داعش کے خلاف ہے۔”
صدر امریکا نے کہا ” داعش کے خاتمے کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ عراق اور شام اپنے سیاسی مسائل کو حل کریں، یہ صرف عراق کے لیے ضروری نہیں بلکہ شام اور خطے کے بعض دوسرے ملکوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ اب نئی نسل پڑھ لکھ کر اچھے روزگار کی خواہشمند ہے۔”